resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: شوہر کا خلع کے بعد بیوی کو دوسری جگہ شادی کرنے سے منع کرنا(23734-No)

سوال: مفتی صاحب! میرے شوہر شہر سے باہر رہتے تھے، میرا اور بچوں کا خرچہ اور ضرورت کی چیزوں کا بالکل بھی خیال نہیں رکھتے تھے اور شکی مزاج بھی بہت تھے جس کی وجہ سے ہماری نہیں بنی، میں اپنے ساس، سسر، نند اور دیور کے ساتھ رہتی تھی، شوہر کے دور ہونے کی وجہ سے زندگی کے معاملات خراب رہتے تھے، ساڑھے چار سال تک بہت مشکل سے بچوں کے ساتھ گزارا کیا، وقتا فوقتا میری ساس مجھے امی کے گھر بھیج دیتی تھیں، ایک بچہ کے بعد ہمارے تین بچے اور بھی ہوئے، شوہر ہر بچہ پر ناراضگی کا اظہار کرتے اور یہی کہتے کہ مجھے اولاد نہیں چاہیے، چار بچوں میں سے ایک کی پیدائش میں مجھے دوائی پلا کر ضائع کروادیا، باقی میں بھی یہی کوشش کرتے رہے، می اپنے والدین کی مدد سے ایسا نہیں ہونے دیتی۔ 2019 میں میرے شوہر نے طلاق کا کہہ کر امی کے گھر بھیج دیا، لیکن طلاق نہیں دی اور پیسوں کی ڈیمانڈ کرنا شروع کردی جس سے میرے دل میں میل آگیا اور میں نے کورٹ جا کر معاملات کا حل ڈھونڈا اور وکیلوںکے مشورے سے 2019 میں خلع کا کیس دائر کردیا، کچھ دنوں میں میرا خلع ہوگیا، اس دوران میرے شوہر کو کورٹ میں بلایا گیا، ان سے بات چیت کے بعد ہم دونوں میاں بیوی کی رضامندی سے خلع ہوگیا اور میرے شوہر نے خوشی کا اظہار کیا، 2019 سے 2024 تک کوئی بات نہیں بن سکی، اب کچھ ٹائم سے وقتا فوقتا میرے سابقہ شوہر مجھ سے رابطہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بچے میرے ہیں، مجھے دے دو اور جو خلع کورٹ سے ہوا ہے، میں اس کو نہیں مانتا، اسلام میں خلع کا کہیں ذکر نہیں ہے اور رجوع بھی نہیں کرنا چاہتے، انہوں نے خود 2020 میں دوسری شادی کرلی ہے اور مجھے میسیج میں کہتے ہیں کہ اگر میں نکاح کہیں اور کروں گی تو وہ حرام ہے اور گناہ ہے۔ براہ کرم آپ میری رہنمائی فرمائیں کہ کیا میں دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہوں؟

جواب: سوال میں ذکر کردہ تفصیلات کے مطابق اگر واقعی شوہر نے عدالت میں پیش ہو کر خلع کے لیے اپنی رضامندی ظاہر کردی تھی، اور عدالت نے اس بنیاد پر خلع کا فیصلہ سنایا تھا تو اس صورت میں اس کی مذکورہ بیوی پر طلاق واقع ہوچکی ہے، عدت گزرنے کے بعد عورت اب اپنے مستقبل کے بارے میں آزاد ہے، عورت اپنی مرضی سے کسی دوسرے شخص سے نکاح کرسکتی ہے، سابقہ شوہر کو اس معاملے میں دخل اندازی کا حق حاصل نہیں ہے۔
جہاں تک بچوں کی پرورش کا سوال ہے تو اگر بچوں کی ماں نے کسی ایسے شخص سے دوسری شادی نہ کی ہو جو بچوں کے لیے نامحرم ہو تو شرعاً سات سال کی عمر تک لڑکوں اور نو سال کی عمر تک لڑکیوں کی پرورش کا حق انکی والدہ کو حاصل ہے، اس دوران بچوں کی پرورش کا خرچہ ان کے والد کے ذمے ہوگا، لیکن اگر بچوں کی ماں نے کسی ایسے شخص سے نکاح کرلیا ہو جو بچوں کے لیے نامحرم ہو تو ایسی صورت میں ماں کا حقِ پرورش ختم ہو جائے گا، پھر بچوں کی نانی اگر زندہ ہو تو اسے پرورش کا حق ہوگا، ورنہ بچوں کی دادی کو پرورش کا حق ملے گا اور جب لڑکے کی عمر سات سال ہو جائے اور اسی طرح لڑکی کی عمر نو سال ہو جائے تو ان کی پرورش کا حق والد کو حاصل ہو جائے گا، پھر بلوغت کے بعد لڑکے اور لڑکی کو اختیار ہوگا کہ وہ اپنی مرضی سے ماں باپ میں سے جس کے پاس رہنا چاہیں رہ سکتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

*رد المحتار: (440/3، ط: ایچ ایم سعید)*
فقالت: خلعت نفسي بكذا، ففي ظاهر الرواية: لايتم الخلع ما لم يقبل بعده۔

*الھندیة: (541/1، ط: دارالفکر)*
أحق الناس بحضانة الصغير حال قيام النكاح أو بعد الفرقة الأم إلا أن تكون مرتدةً أو فاجرةً غير مأمونة، كذا في الكافي ... وإن لم يكن له أم تستحق الحضانة بأن كانت غير أهل للحضانة أو متزوجةً بغير محرم أو ماتت فأم الأم أولى من كل واحدة ... *والأم والجدة أحق بالغلام حتى يستغني، وقدر بسبع سنين*، وقال القدوري: حتى يأكل وحده، ويشرب وحده، ويستنجي وحده. وقدره أبو بكر الرازي بتسع سنين، والفتوى على الأول. *والأم والجدة أحق بالجارية حتى تحيض. وفي نوادر هشام عن محمد - رحمه الله تعالى : إذا بلغت حد الشهوة فالأب أحق، وهذا صحيح*. هكذا في التبيين... وإذا وجب الانتزاع من النساء أو لم يكن للصبي امرأة من أهله يدفع إلى العصبة فيقدم الأب، ثم أبو الأب، وإن علا".

واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی


Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Divorce