سوال:
میرا سوال یہ ہے کہ اگر لڑکی نکاح کے بعد رخصتی سے پہلے طلاق کا مطالبہ کرے اس وجہ سے کہ اسے کوئی اور پسند ہے اور وہ وہاں شادی کرنا چاہتی ہے، جبکہ اس کی فیملی بھی دوسری جگہ شادی کے لیے تیار ہے تو ایسی صورت میں طلاق کا کیا حکم ہے؟ کیا طلاق دے دینی چاہیے؟ جبکہ لڑکی کہہ رہی ہے کہ اگر طلاق نہیں دو گے تو میں خلع لے لوں گی تو کیا اس صورت میں لڑکا خود طلاق دے دے تو گناہ گار تو نہیں ہوگا؟ کیونکہ لڑکا نکاح کو قائم رکھنا چاہتا ہے۔
مزید یہ کہ نکاح کے بعد لڑکا اور لڑکی تنہائی میں مل چکے ہیں اور ایک اسقاط حمل (ابورشن) بھی کروا چکے ہیں، اگر لڑکا خود طلاق دے دے تو حق مہر جو طے ہوا تھا کہ جب لڑکی مانگے گی تب دیا جائے گا، کیا اس صورت میں جب لڑکی خود حق مہر نہیں مانگ رہی بلکہ صرف طلاق کا مطالبہ کر رہی ہے تو کیا لڑکے پر حق مہر دینا لازم ہوگا؟ اور نکاح کے وقت جو سونا لڑکی کو دیا گیا تھا، کیا وہ واپس لینا ہوگا؟ جبکہ لڑکی کے گھر والے سونا واپس کرنے کے لیے تیار ہیں۔
مزید یہ رہنمائی فرمائیں کہ کیا دارالافتاء یا کوئی ایسی جگہ ہے جہاں علمائے کرام کے سامنے بیٹھ کر طلاق کا یہ عمل انجام دیا جا سکے، جہاں دونوں خاندان آجائیں اور شریعت کے مطابق تمام امور طے کر لیے جائیں؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں اولاً دونوں خاندانوں کے معتبر لوگوں کو درمیان میں بیٹھ کر اس معاملے کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، اور لڑکی کو سمجھا کر اس رشتہ کے نبھانے پر آمادہ کرنا چاہیے، کوشش کے باوجود اگر پھر بھی لڑکی مطالبہ طلاق پر مصر ہو تو لڑکا اس کو طلاق دے کر یا مہر کے بدلے خلع کا معاملہ کرکے نکاح کو ختم کرسکتا ہے، اور ایسی صورت میں شوہر طلاق دینے کی وجہ سے گناہ گار نہیں ہوگا۔
واضح رہے کہ مذکورہ صورت میں مہر کا حکم یہ ہے لڑکے کی طرف سے مہر کی شرط کے بغیر طلاق دینے کی صورت میں لڑکے پر مکمل مہر کی ادائیگی لازم ہوگی، لیکن اگر لڑکا مہر کے بدلے طلاق یا خلع کا معاملہ کرے گا تو اس صورت میں لڑکے پر مہر کی ادائیگی لازم نہیں ہوگی۔
نیز یہ بھی واضح رہے کہ نکاح کے موقع پر لڑکے کی طرف سے لڑکی کو ملنے والے زیورات اگر اس بات کی صراحت کے ساتھ دیے گئے ہوں کہ یہ اسی کی ملکیت ہیں تو یہ زیورات لڑکی کی ملکیت ہوں گے، ایسی صورت میں اس پر ان کی واپسی لازم نہیں ہوگی، اور اگر زیورات دیتے وقت لڑکے کی طرف سے اس بات کی صراحت کی گئی ہو کہ یہ زیورات بیوی کو مالکانہ طور پر نہیں، بلکہ بطورِ عاریت (صرف استعمال کے لیے ) دیے جارہے ہیں تو اس صورت میں زیورات شوہر ملکیت ہوں گے جو اس کو واپس کرنے لازم ہوں گے، لیکن زیورات دیتے وقت کسی بھی قسم کی وضاحت نہ ہونے کی صورت میں لڑکے کی برادری اور خاندان کے عرف کا اعتبار کیا جائے گا، اگر اس کی برادری میں دلہن کو سسرال کی طرف سے زیورات بطور ملکیت دیے جاتے ہیں تو اسی پر عمل کیا جائے گا اور یہ زیورات لڑکی کی ملکیت شمار ہوں گے اور اس کی واپسی اس پر لازم نہیں ہوگی، اور اگر لڑکے کی برادری اور خاندان میں بیوی کو زیورات وغیرہ بطور عاریت (صرف استعمال کے لیے) دیے جاتے ہیں تو اسی پر عمل کیا جائے گا، یعنی سسرال والے اگر چاہیں تو لڑکی سے زیورات واپس لے سکتے ہیں، البتہ اگر لڑکے کی برادری کا کوئی عرف نہیں ہے اور زیورات دیتے وقت کوئی وضاحت بھی نہیں کی گئی ہو تو ایسی صورت میں زیورات اس لڑکی کی ملکیت شمار ہوں گے اور اس کی واپسی اس پر لازم نہیں ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الدلائل:
القرآن الكريم: (النساء، الآية: 35)
وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًاo
وقوله تعالی: (البقرة، الایة: 237)
وَإِن طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ إَلاَّ أَن يَعْفُونَ أَوْ يَعْفُوَ الَّذِي بِيَدِهِ عُقْدَةُ النِّكَاحِ ...الخ
رد المحتار علی الدر المختار: (696/5، ط: دار الفکر)
(قوله: وكذا زفاف البنت) أي على هذا التفضيل بأن كان من أقرباء الزوج أو المرأة أو قال المهدي.
أهديت للزوج أو المرأة كما في التتارخانية.
وفي الفتاوى الخيرية سئل فيما يرسله الشخص إلى غيره في الأعراس ونحوها هل يكون حكمه حكم القرض فيلزمه الوفاء به أم لا؟ أجاب: إن كان العرف بأنهم يدفعونه على وجه البدل يلزم الوفاء به مثليا فبمثله، وإن قيميا فبقيمته وإن كان العرف خلاف ذلك بأن كانوا يدفعونه على وجه الهبة، ولا ينظرون في ذلك إلى إعطاء البدل فحكمه حكم الهبة في سائر أحكامه فلا رجوع فيه بعد الهلاك أو الاستهلاك، والأصل فيه أن المعروف عرفا كالمشروط شرطا اه.
الھندیة: (327/1، ط: دار الفکر)
وإذا بعث الزوج إلی أہل زوجتہ أشیاء عند زفافہا منہا دیباج، فلما زفت إلیہ أراد أن یسترد من المرأۃ الدیباج لیس لہ ذلک، إذا بعث إلیہا علی جہۃ التملیک - إلی قولہ - وقال في الواقعات: إن کان العرف ظاہراً بمثلہ في الجہاز کما في دیارنا، فالقول قول الزوج، وإن کان مشترکا، فالقول قول الأب۔
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی