سوال:
مفتی صاحب! ہمارے علاقہ میں رواج یہ ہے کہ گھر سے جنازہ گاہ تک میت کو کندھے پر اٹھا کر لے جاتے ہیں اور جنازہ کے بعد قبر تک میت کو کندھوں پر نہیں بلکہ ہاتھوں پر لے کر جاتے ہیں۔ کیا یہ طریقہ ٹھیک ہے؟
جواب: واضح رہے کہ میت اٹھانے کا مذکورہ طریقہ کسی حدیث شریف سے ثابت نہیں ہے، بلکہ فقہاء کرام نے احادیث مبارکہ کی روشنی میں اس بات کی صراحت کی ہے کہ نمازِ جنازہ کے بعد میت کو کندھوں پر اٹھا کر چالیس قدم اس طرح چلنا کہ ہر پایہ اٹھا کر دس قدم چلا جائے، مستحب ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھندیة: (162/1، ط: دار الفکر)
فَيَحْمِلُهُ عَلَى عَاتِقِهِ الْأَيْمَنِ ثُمَّ الْمُؤَخَّرُ الْأَيْمَنُ عَلَى عَاتِقِهِ الْأَيْمَنِ ثُمَّ الْمُقَدَّمُ الْأَيْسَرُ عَلَى عَاتِقِهِ الْأَيْسَرِ ثُمَّ الْمُؤَخَّرُ الْأَيْسَرُ عَلَى عَاتِقِهِ الْأَيْسَرِ هَكَذَا فِي التَّبْيِينِ.
بدائع الصنائع: (333/2، ط: دار النشر)
وینبغی ان یحمل من کل جانب عشرخطوات لماروی فی الحدیث "من حمل جنازۃً أربعین خطوۃً کفرت عنه أربعین کبیرۃ، (اخرجه ابن حبان فی المجروحین 103/2)
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی