سوال:
ایک گاڑیوں کے تاجر نے ایک شخص کو کہا کہ یہ آلٹو گاڑی تیرہ لاکھ روپے کی ہے، آپ میرے سے دس لاکھ میں لے لیں، لیکن اسکے اوریجنل کاغذات چھ ماہ بعد دوں گا، کیا اسطرح کا معاملہ کرنا جائز ہے ؟ جبکہ اس تاجر کا کہنا ہے کہ میں شوروم والے کو دو لاکھ یا تین لاکھ دے کر ادھار پر گاڑی نکلواؤں گا، باقی پیسے اسکو قسطوں میں دوں گا اور یہ پیسے اپنے استعمال میں لاؤں گا، کیا دوسرے شخص کا گاڑی لینا درست ہے یا نہیں؟ رہنمائی فرمائیں
جواب: واضح رہے کہ شرعاً کسی چیز کی خریدوفروخت میں اس کے کاغذات پر قبضہ شرط نہیں ہے، لہذا کاغذات پر قبضہ کیے بغیر گاڑی کی خریدوفروخت جائز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مجلۃ الاحکام: (الفصل الاول فی ما یتعلق برکن البیع، المادۃ: 168)
"البیع ینعقد بایجاب وقبول".
رد المحتار: (کتاب البیوع، 504/4)
"اما القول فالا یجاب والقبول وھما رکنہ ظاھرہ ان الضمیر للایجاب والقبول".
البحر الرائق: (کتاب البیع، 258/5)
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی