سوال:
مفتی صاحب! کیا مردہ (deceased) کی قضا نماز کا فدیہ دیا جاسکتا ہے؟ اگر دیا جاسکتا ہے تو کیا فدیہ کے پیسوں سے مسجد بنوائی جا سکتی ہے؟
جواب: واضح رہے کہ اگر مرحوم کے ذمے کچھ قضا نمازیں ہوں، اور مرنے سے قبل اس نے فدیہ ادا کرنے کی وصیت بھی کی ہو تو ورثاء کے لیے اس کی نمازوں کا فدیہ کل ترکہ کے ایک تہائی سے ادا کرنا ضروری ہے، لیکن اگر ایک تہائی مال سے تمام نمازوں کا فدیہ ادا نہ ہو سکے تو باقی ماندہ نمازوں کا فدیہ ادا کرنا ورثاء کے ذمے لازم نہیں ہے، تاہم اگر ورثاء اپنی خوشی سے مرحوم کی بقیہ نمازوں کا فدیہ ادا کر دیں تو یہ ان کی طرف سے تبرع اور احسان ہوگا۔
اسی طرح اگر مرحوم نے اپنی فوت شدہ نمازوں کا فدیہ ادا کرنے کی وصیت ہی نہ کی ہو تو اس صورت میں ورثاء کے ذمہ مرحوم کی طرف سے فدیہ ادا کرنا لازم نہیں ہے، تاہم اگر ورثاء میں سے کوئی اپنی خوشی سے بطور تبرع ادا کرنا چاہے تو ادا ہو جائے گا اور امید ہے کہ مرحوم کو آخرت کی باز پرس سے نجات حاصل ہوجائے گی۔
نیز واضح رہے کہ فدیہ کی رقم کا مصرف مستحقِ زکوٰۃ لوگ ہیں، لہذا جس طرح زکوة کی رقم سے مسجد بنانا جائز نہیں ہے، اسی طرح فدیہ کی رقم سے بھی مسجد بنوانا جائز نہیں ہے۔ ہاں! اگر فدیہ کے مستحق کو فدیہ کی رقم دے دی جائے، پھر وہ اپنی مرضی سے ان پیسوں سے مسجد تعمیر کروانا چاہے تو کروا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (72/2، ط: دار الفکر)
(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة (وكذا حكم الوتر).
ثم اعلم أنه إذا أوصى بفدية الصوم يحكم بالجواز قطعا لأنه منصوص عليه. وأما إذا لم يوص فتطوع بها الوارث فقد قال محمد في الزيادات إنه يجزيه إن شاء الله تعالى، فعلق الإجزاء بالمشيئة لعدم النص، وكذا علقه بالمشيئة فيما إذا أوصى بفدية الصلاة لأنهم ألحقوها بالصوم احتياطا لاحتمال كون النص فيه معلولا بالعجز فتشمل العلة الصلاة وإن لم يكن معلولا تكون الفدية برا مبتدأ يصلح ماحيا للسيئات فكان فيها شبهة كما إذا لم يوص بفدية الصوم فلذا جزم محمد بالأول ولم يجزم بالأخيرين، فعلم أنه إذا لم يوص بفدية الصلاة فالشبهة أقوى.
واعلم أيضا أن المذكور فيما رأيته من كتب علمائنا فروعا وأصولا إذا لم يوص بفدية الصوم يجوز أن يتبرع عنه وليه.
وایضا: (2/ 339- 344، كتاب الزكاة، باب مصرف الزكاة والعشر، ط: دارالفکر)
باب المصرف أي مصرف الزكاة والعشر، وأما خمس المعدن فمصرفه كالغنائم (هو فقير، وهو من له أدنى شيء) أي دون نصاب أو قدر نصاب غير نام مستغرق في الحاجة.۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة كما مر (لا) يصرف (إلى بناء) نحو (مسجد و) لا إلى (كفن ميت وقضاء دينه)
(قوله: أي مصرف الزكاة والعشر) يشير إلى وجه مناسبته هنا، والمراد بالعشر ما ينسب إليه كما مر فيشمل العشر ونصفه المأخوذين من أرض المسلم وربعه المأخوذ منه إذا مر على العاشر أفاده ح. وهو مصرف أيضا لصدقة الفطر والكفارة والنذر وغير ذلك من الصدقات الواجبة كما في القهستاني.
(قوله: كما مر) أي في أول كتاب الزكاة ط (قوله: نحو مسجد) كبناء القناطر والسقايات وإصلاح الطرقات وكري الأنهار والحج والجهاد وكل ما لا تمليك فيه زيلعي (قوله: ولا إلى كفن ميت) لعدم صحة التمليك منه؛ ألا ترى أنه لو افترسه سبع كان الكفن للمتبرع لا للورثة نهر.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی