سوال:
مفتی صاحب! ایک شخص نے ایک امرود کے باغ کا سودا کیا۔ مثال کے طور پر دو لاکھ نوے ہزار (290000) ہزار روپے قرض پر یہ سودا ہوا۔ ایک لاکھ روپے اس کو نقد دے دیے ہیں، باقی قرضہ ایک لاکھ نوے ہزار(190000) اس پر ابھی باقی ہے، اب باغ کا مالک کہتا ہے کہ مجھ کو کوئی ضرورت درپیش ہے، اس لیے آپ ایک لاکھ نوے ہزار(190000) کے بجائے ایک لاکھ ساٹھ ہزار(160000) ابھی دے دو، باقی 30 ہزار میں اس شرط پر معاف کرتا ہوں۔ کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
تنقیح: کیا قرض ادا کرنے کی مدت طے ہوئی تھی؟ طے ہوئی تھی تو کیا وہ مدت آگئی ہے یا ابھی باقی ہے؟
جواب تنقیح: ادھار کا معاملہ ہے، مدت باقی ہے۔
جواب: آپ کی پوچھی گئی صورت کا حکم یہ ہے کہ جو باغ کے مالک نے کہا کہ ایک لاکھ نوے ہزار(190000) دین مؤجل کے بجائے ایک لاکھ ساٹھ ہزار فی الحال دے دو تو تیس ہزار (30000) اس شرط پر معاف ہیں، یہ صورت ناجائز ہے۔ کیونکہ باغ کا مالک مدت کے عوض تیس ہزار روپے (30000) کم کر رہا ہے، البتہ اگر بغیر شرط لگائے باغ کا مالک تیس ہزار روپے (30000) اپنی خوشی سے معاف کر دے تو پھر جائز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
فقه البيوع:(مسألة ضع وتعجل، 532،531/1،ط: معارف القرآن کراچی)
ومما يتعامل به بعض التجار في الديون المؤجلة انهم يسقطون حصة من الدين بشرط ان يعجل المديون باقيه قبل حلول الأجل، مثل : ان يكون لزيد على عمرو الف، فيقول زيد:(عجل لي تسمعمئة، وأضع عنك مائة)، وان هذه المعاملة معروف في الفقه باسم "ضع وتعجل"، وهذا التعجيل ان كان مشروطا بالوضع من الدين، فان المذاهب الاربعه متفقة على عدم جوازه.
شرح المجلة للأتاسي:(في بيان الصلح عن الدين،530/4،ط: رشیدیة)
بحوث في قضايا فقهية معاصرة:(الوضع عند التعجیل من غیر شرط ،33،32، ط: دار القلم دمشق)
فقہی مقالات:(قسطوں پر خریدوفروخت، 36،33،ط: دارالعلوم کراچی)
واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص کراچی