سوال:
مفتی صاحب! قربانی کے جانور میں جانور خریدنے سے پہلے ایک شخص کے دو حصے تھے، باقی پانچ آدمیوں کا ایک ایک حصہ تھا۔ جانور خریدنے کے بعد دو حصے والے شخص نے ایک حصہ کسی اور کو دے دیا اب سب کا ایک ایک حصہ ہو گیا۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا اپنے دو حصوں میں سے ایک حصہ جانور خریدنے کے بعد دینا جاٸز ہے؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں اگر جانور کی خریداری سے پہلے ہی مذکورہ شخص نے ایک حصہ کسی کو دینے کی نیت کرلی تھی تو ایسی صورت میں ایک حصہ کسی اور کو دینا جائز ہے، اور اگر جانور کی خریداری کے وقت ایک حصہ کسی اور کو دینے کی نیت نہیں تھی تو اگر مذکورہ شخص پر صاحبِ نصاب ہونے کی وجہ سے قربانی لازم ہے تو اس کے لیے ایک حصہ کسی کو دینا مكروه ہے، لیکن اگر صاحبِ نصاب نہ ہونے کی وجہ سے اس پر پہلے قربانی لازم نہیں تھی تو جانور کے خریدتے ہی اس پر دونوں حصوں کی قربانی واجب ہوگئی، لہٰذا اس کے لیے اپنا حصہ کسی اور دینا جائز نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الهندية: (5/ 304، ط: دار الفكر)
«ولو اشترى بقرة يريد أن يضحي بها، ثم أشرك فيها ستة يكره ويجزيهم؛ لأنه بمنزلة سبع شياه حكما، إلا أن يريد حين اشتراها أن يشركهم فيها فلا يكره، وإن فعل ذلك قبل أن يشتريها كان أحسن، وهذا إذا كان موسرا، وإن كان فقيرا معسرا فقد أوجب بالشراء فلا يجوز أن يشرك فيها، وكذا لو أشرك فيها ستة بعد ما أوجبها لنفسه لم يسعه؛ لأنه أوجبها كلها لله تعالى، وإن أشرك جاز، ويضمن ستة أسباعها، وقيل في الغني: إنه يتصدق بالثمن»
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی