resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: قرض کی حلال رقم سے قربانی کرنے کے بعد حرام کی کمائی سے قرض ادا کرنے کا حکم (24919-No)

سوال: مفتی صاحب! میری حرام کے علاوہ کوئی دوسری آمدنی نہیں ہے، مجھے کسی نے کہا ہے کہ ادھار لے کر قربانی کرلو تو قربانی ہوجائے گی، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مجھے ادھار اسی حرام تنخواہ سے ادا کرنا ہے تو کیا پھر میری قربانی ہوجائے گی؟ اور کیا اس شخص کے لیےحرام پیسوں سے قرض وصول کرنا درست ہوگا؟

جواب: واضح رہے کہ جس کی کل یا غالب کمائی حرام کی ہو تو ایسے شخص کے لیے انفرادی طور پر قربانی کرنا یا اجتماعی قربانی میں حصہ لینا شرعاً جائز نہیں ہے، کیونکہ حرام مال سے کی گئی قربانی اللہ تعالی کے ہاں قبول نہیں ہوتی ہے۔
تاہم اگر وہ شخص کسی سے بطور قرض حلال رقم لے کر انفرادی یا اجتماعی قربانی کرلے اور بعد میں اپنی حرام کمائی سے قرض ادا کردے تو ایسے شخص کی قربانی درست ہو جائے گی، لیکن قرض خواہ کے لیے جان بوجھ کر حرام کمائی سے قرض وصول کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الھندیة: (220/1، ط: دار الفکر)
إذا أراد الرجل أن يحج بمال حلال فيه شبهة فإنه يستدين للحج ويقضي دينه من ماله كذا في فتاوى قاضي خان في المقطعات.

و فیه ایضاً: (342/5، ط: دار الفکر)
أهدى إلى رجل شيئا أو أضافه إن كان غالب ماله من الحلال فلا بأس إلا أن يعلم بأنه حرام، فإن كان الغالب هو الحرام ينبغي أن لا يقبل الهدية، ولا يأكل الطعام إلا أن يخبره بأنه حلال ورثته أو استقرضته من رجل، كذا في الينابيع.

رد المحتار: (385/6، ط: دار الفكر)
(قوله وفي الأشباه إلخ) قال الشيخ عبد الوهاب الشعراني في كتاب المنن: وما نقل عن بعض الحنفية من أن الحرام لا يتعدى إلى ذمتين سألت عنه الشهاب ابن الشلبي فقال: هو محمول على ما إذا لم يعلم بذلك، أما من رأى المكاس يأخذ من أحد شيئا من المكس، ثم يعطيه آخر ثم يأخذه من ذلك الآخر فهو حرام اه.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Qurbani & Aqeeqa