سوال:
مفتی صاحب! میں نے رمضان المبارک میں اپنی بیوی سے ہمبستری کی تھی، جس کا کفّارہ میرے ذمہ لازم تھا، میں نے روزے کے کفّارہ میں محلے کے مدرسے کے ساٹھ مسکین بچوں کو کھانا کھلا دیا ہے، کیا میرا کفّارہ ادا ہوگیا؟ رہنمائی فرمائیں۔
جواب: پوچھی گئی صورت میں اگر آپ کے اندر روزے رکھنے کی طاقت بیماری، کمزوری یا بڑھاپے کی وجہ سے بالکل نہ تھی تو آپ کا 60 مسکینوں کو کھانا کھلانا درست تھا بشرطیکہ دو وقت کھانا کھلایا ہو ورنہ نہیں۔ نیز مدرسے کے بچوں کو کھانا کھلانے کی صورت میں اگر بچے قریب البلوغ تھے اور بڑوں کے بقدر کھانا کھا لیتے تھے تو آپ کا کفّارہ درست ہو گیا اور اگر ایسے بچے نہ تھے تو کفّارہ درست نہیں ہوا، دوبارہ ادا کرنا لازم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھندیة: (اﻟﻨﻮﻉ اﻟﺜﺎﻧﻲ ﻣﺎ ﻳﻮﺟﺐ اﻟﻘﻀﺎء ﻭالكفارة، 453/1، ط: رشیدیة)
ﻣﻦ ﺟﺎﻣﻊ ﻋﻤﺪا ﻓﻲ ﺃﺣﺪ اﻟﺴﺒﻴﻠﻴﻦ ﻓﻌﻠﻴﻪ اﻟﻘﻀﺎء ﻭاﻟﻜﻔﺎﺭﺓ، ﻭﻻ ﻳﺸﺘﺮﻁ اﻹﻧﺰاﻝ ﻓﻲ اﻟﻤﺤﻠﻴﻦ ﻛﺬا ﻓﻲ اﻟﻬﺪاﻳﺔ. ﻭﻋﻠﻰ اﻟﻤﺮﺃﺓ ﻣﺜﻞ ﻣﺎ ﻋﻠﻰ اﻟﺮﺟﻞ ﺇﻥ ﻛﺎﻧﺖ ﻣﻄﺎﻭﻋﺔ
الدر المختار مع رد المحتار: (باب کفارۃ الظهار، 478/3، ط: سعید)
(ﻓﺈﻥ ﻋﺠﺰ ﻋﻦ اﻟﺼﻮﻡ) ﻟﻤﺮﺽ ﻻ ﻳﺮﺟﻰ ﺑﺮﺅﻩ ﺃﻭ ﻛﺒﺮ (ﺃﻃﻌﻢ) ﺃﻱ ﻣﻠﻚ (ﺳﺘﻴﻦ ﻣﺴﻜﻴﻨﺎ) ﻭﻟﻮ ﺣﻜﻤﺎ، ﻭﻻ ﻳﺠﺰﺉ ﻏﻴﺮ اﻟﻤﺮاﻫﻖ ﺑﺪاﺋﻊ.
(ﻗﻮﻟﻪ: ﻭﻻ ﻳﺠﺰﺉ ﻏﻴﺮ اﻟﻤﺮاﻫﻖ) ﺃﻱ ﻟﻮ ﻛﺎﻥ ﻓﻴﻬﻢ ﺻﺒﻲ ﻟﻢ ﻳﺮاﻫﻖ ﻻ ﻳﺠﺰﺉ ﻭاﺧﺘﻠﻒ اﻟﻤﺸﺎﻳﺦ ﻓﻴﻪ، ﻭﻣﺎﻝ اﻟﺤﻠﻮاﻧﻲ ﺇﻟﻰ ﻋﺪﻡ اﻟﺠﻮاﺯ ﺑﺤﺮ ﻋﻨﺪ ﻗﻮﻝ اﻟﻜﻨﺰ ﻭاﻟﺸﺮﻁ ﻏﺪاءاﻥ، ﺃﻭ ﻋﺸﺎءاﻥ ﻣﺸﺒﻌﺎﻥ ﻭﺫﻛﺮ ﻋﻨﺪ ﻗﻮﻝ اﻟﻜﻨﺰ - ﻭﻫﻮ ﺗﺤﺮﻳﺮ ﺭﻗﺒﺔ ﻋﻦ اﻟﺒﺪاﺋﻊ -: ﻭﺃﻣﺎ ﺇﻃﻌﺎﻡ اﻟﺼﻐﻴﺮ ﻋﻦ اﻟﻜﻔﺎﺭﺓ ﻓﺠﺎﺋﺰ ﺑﻄﺮﻳﻖ اﻟﺘﻤﻠﻴﻚ ﻻ اﻹﺑﺎﺣﺔ اﻩ ﻭﺑﻪ ﻋﻠﻢ ﺃﻥ ﺫﻛﺮ ﺫﻟﻚ ﻫﻨﺎ ﻏﻴﺮ ﺻﺤﻴﺢ ﻭﺇﻥ ﻭﻗﻊ ﻓﻲ اﻟﻨﻬﺮ ﻷﻥ اﻟﻜﻼﻡ ﻫﻨﺎ ﻓﻲ اﻟﺘﻤﻠﻴﻚ ﻭﻫﻮ ﺻﺤﻴﺢ ﻟﻠﺼﻐﻴﺮ، ﻓﺎﻟﺼﻮاﺏ ﺫﻛﺮﻩ ﻋﻨﺪ ﻗﻮﻟﻪ ﻭﺇﻥ ﻏﺪاﻫﻢ ﻭﻋﺸﺎﻫﻢ ﺇﻟﺦ ﻛﻤﺎ ﻓﻌﻞ ﻓﻲ اﻟﺒﺤﺮ، ﻭﻛﺬا ﻓﻲ اﻟﻤﻨﺢ ﺣﻴﺚ ﻗﺎﻝ ﻫﻨﺎﻙ: ﻭﻟﻮ ﻛﺎﻥ ﻓﻴﻤﻦ ﺃﻃﻌﻤﻬﻢ ﺻﺒﻲ ﻓﻄﻴﻢ ﻟﻢ ﻳﺠﺰﻩ ﻷﻧﻪ ﻻ ﻳﺴﺘﻮﻓﻲ ﻛﺎﻣﻼ. اﻩ. ﻭﻓﻲ اﻟﺘﺘﺎﺭﺧﺎﻧﻴﺔ: ﻭﺇﺫا ﺩﻋﺎ ﻣﺴﺎﻛﻴﻦ ﻭﺃﺣﺪﻫﻢ ﺻﺒﻲ ﻓﻄﻴﻢ، ﺃﻭ ﻓﻮﻕ ﺫﻟﻚ ﻻ ﻳﺠﺰﻳﻪ ﻛﺬا ﺫﻛﺮ ﻓﻲ اﻷﺻﻞ. ﻭﻓﻲ اﻟﻤﺠﺮﺩ: ﺇﺫا ﻛﺎﻧﻮا ﻏﻠﻤﺎﻧﺎ ﻳﻌﺘﻤﺪ ﻣﺜﻠﻬﻢ ﻳﺠﻮﺯ. اﻩ. ﻭﺑﻪ ﻇﻬﺮ ﺃﻳﻀﺎ ﺃﻥ اﻟﻤﺮاﺩ ﺑﺎﻟﻔﻄﻴﻢ ﻭﺑﻐﻴﺮ اﻟﻤﺮاﻫﻖ ﻣﻦ ﻻ ﻳﺴﺘﻮﻓﻲ اﻟﻄﻌﺎﻡ اﻟﻤﻌﺘﺎﺩ.
الفقه الأسلامي وأدلته: (قضاء الصوم وكفارته وفديته، 601/2، ط: رشیدیة)
فتاویٰ عثمانیة: (کتاب الصوم، 207/4، ط: العصر اکیڈمی)
واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی