resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: کوئی مدت متعین نہ ہونے کی صورت میں بیع مؤجل کا حکم (25967-No)

سوال: مفتی صاحب! اگر کسی نے گاڑی اس طرح فروخت کی کہ اگر ایک مہینے میں پیسے ادا کیے تو 10 لاکھ دو گے اور اگر اس سے زیادہ تاخیر کی تو 20 لاکھ دینے ہوں گے، لیکن کسی ایک قیمت پر اتفاق نہیں ہوا اور مجلس ختم ہو گئی تو کیا اس طرح کیا گیا معاملہ شرعاً درست ہوا؟ رہنمائی فرمائیں۔

جواب: پوچھی گئی صورت میں جب بائع اور مشتری نے کسی ایک قیمت پر مجلس عقد میں اتفاق نہیں کیا تو یہ بیع درست نہیں ہوئی، دوبارہ سے باہمی رضا مندی سے کوئی ایک قیمت متعین کر کے معاملہ کریں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

فقہ البیوع:(زياده الثمن من أجل التأجيل،531/1،ط: معارف القرآن کراچی)
والظاهر أن البائع لو ذكر أثمانا مختلفة لآجال مختلفة،ثم جزما على واحد من الآجال، فإنه جائز أيضاً. وحاصله أن ذلك يجوز عند المساومة فقط، وأما عقد البيع، فلا يصح إلا بجزم الفريقين على أجل معلوم وثمن معلوم، فإن لم يجزم العاقدان على ما وقع عليه البيع، لم يجز. وبهذا يعلم حكم ما قد يقع في السوق، من أن البائع يقول "إن أديت الثمن بعد شهر، فالبضاعة بعشرة، وإن أديته بعد شهرين، فهي باثني عشر" ويفترقان على ذلك،زعما من المشتري أنه سوف يختار منها ما يلائمه في المستقبل، فإن هذا البيع فاسد بالإجماع.

رد المحتار:(باب المرابحة والتولية،142/5،ط: سعید)

فتاویٰ قاسمیہ:(باب المرابحة،515/29،ط: رشیدیة)

واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Business & Financial