سوال:
بعض حضرات کو دیکھا ہے کہ پانی کے موجود ہونے کے باوجود وہ تیمم کر کے نماز پڑھ لیتے ہیں، کیا اس طرح پانی کی موجودگی میں تیمم کرنا جائز ہے؟
جواب: واضح رہے کہ پانی کی موجودگی میں بغیر کسی شرعی عذر کے تیمم کرنا جائز نہیں ہے، البتہ اگر پانی موجود ہو، مگر استعمال کرنے والے کا غالب گمان ہو کہ اگر وہ پانی استعمال کرے گا تو بیمار پڑ جائے گا یا اس کی بیماری میں مزید اضافہ ہوگا یا بیماری ٹھیک ہونے میں دیر لگے گی تو ان تمام صورتوں میں اس کے لیے تیمم کرنا جائز ہے، اسی طرح سخت سردی کی وجہ سے جنبی شخص کو اس بات کا خوف ہو کہ اگر وہ ٹھنڈے پانی سے غسل کرے گا تو اس کی جان چلی جائے گی یا اس کا کوئی عضو تلف ہوجائے گا یا بیمار ہوجائے گا تو ایسے شخص کے لیے بھی تیمم کرنا جائز ہے، بشرطیکہ پانی گرم کرنے کا کوئی انتظام نہ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الآیۃ: 43)
وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا۔۔۔۔الخ
الفتاوی الھندیة: (28/1، ط: دار الفكر)
ويجوز التيمم إذا خاف الجنب إذا اغتسل بالماء أن يقتله البرد أو يمرضه هذا إذا كان خارج المصر إجماعا فإن كان في المصر فكذا عند أبي حنيفة خلافا لهما والخلاف فيما إذا لم يجد ما يدخل به الحمام فإن وجد لم يجز إجماعا وفيما إذا لم يقدر على تسخين الماء فإن قدر لم يجز هكذا في السراج الوهاج...ولو كان يجد الماء إلا أنه مريض يخاف إن استعمل الماء اشتد مرضه أو أبطأ برؤه يتيمم.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی