سوال:
کیا 3طلاقوں کے بعد عدت میں بیوی سے رجوع کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟
جواب: واضح رہے کہ تین طلاقیں دینے کی صورت میں عدت کے دوران رجوع کا حق باقی نہیں رہتا ہے، اور نہ ہی عدت گزرنے کے بعد اس شوہر سے نکاح ہو سکتا ہے،جب تک کسی اور مرد سے نکاح نہ کرے اور اس کے ساتھ حقوق زوجیت ادا نہ کرے، پھر اگر وہ طلاق دے دے یا انتقال کر جائے، تو عورت عدت گزارے، اس کے بعد وہ عورت پہلے شوہر سے نکاح کر سکتی ہے۔
چناچہ اس بارے میں حکم قرآن و حدیث میں واضح طور پر آیا ہے، جیساکہ مندرجہ ذیل آیت اور حدیث میں مذکور ہے۔
ولمافی التنزیل العزیز:
فَاِنْ طَلَّقَہَا فَلَا تَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہ".
(سورة البقرة، الایۃ230)
ترجمہ:پھر اگر شوہر (تیسری) طلاق دیدے تو وہ (مغلظہ عورت) اس کے لئے اس وقت تک حلال نہیں ہو گی جب تک وہ کسی اور شوہر سے نکاح نہ کرے.
وفی الصحیح البخاری:
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ ، قَالَ : حَدَّثَنِي اللَّيْثُ ، قَالَ : حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ ، أَنَّ امْرَأَةَ رِفَاعَةَ الْقُرَظِيِّ جَاءَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَتْ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِنَّ رِفَاعَةَ طَلَّقَنِي ، فَبَتَّ طَلَاقِي ، وَإِنِّي نَكَحْتُ بَعْدَهُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الزَّبِيرِ الْقُرَظِيَّ وَإِنَّمَا مَعَهُ مِثْلُ الْهُدْبَةِ ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَعَلَّكِ تُرِيدِينَ أَنْ تَرْجِعِي إِلَى رِفَاعَةَ ، لَا حَتَّى يَذُوقَ عُسَيْلَتَكِ وَتَذُوقِي عُسَيْلَتَهُ
ترجمہ:
مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی اور انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ رفاعہ قرظی رضی اللہ عنہ کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا: یا رسول اللہ! رفاعہ نے مجھے طلاق دے دی اور طلاقیں بھی تین دیں، پھر میں نے اس کے بعد عبدالرحمٰن بن زبیر قرظی رضی اللہ عنہ سے نکاح کر لیا لیکن ان کے پاس تو کپڑے کے پلو جیسا ہے ( یعنی وہ نامرد ہیں ) ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غالباً تم رفاعہ کے پاس دوبارہ جانا چاہتی ہو لیکن ایسا اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک تم اپنے موجودہ شوہر کا مزا نہ چکھ لو اور وہ تمہارا مزہ نہ چکھ لے۔ (کتاب الطلاق، باب من اجاز طلاق الثلاث، رقم الحدیث:5260، ج:3/412، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرة، الآیۃ: 230)
فَاِنْ طَلَّقَہَا فَلَا تَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہ....الخ
تفسیر روح المعانی: (سورۃ البقرۃ)
"فإن طلقہا‘‘ متعلقا بقولہ سبحانہ ’’الطلاق مرتان‘‘ …… فلاتحل لہ من بعد‘‘ أي من بعد ذلک التطلیق ’’حتی تنکح زوجاًغیرہ‘‘ أي تتزوج زوجا غیرہ ویجامعہا".
أحكام القرآن: (سورۃ البقرۃ، إیقاع الطلاق الثلاث معا)
"قولہ تعالیٰ: ’’فإن طلقہافلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ‘‘ منتظم لمعان: منہا تحریمہا علی المطلق ثلاثا حتی تنکح زوجا غیرہ، مفید في شرط ارتفاع التحریم الواقع بالطلاق الثلاث العقد والوطء جمیعا".
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی