سوال:
مفتی صاحب! کیا عورتوں کے ذمے استعمال کے زیورات میں زکوۃ ہے؟ اس بارے میں ائمہ اربعہ کا کیا موقف ہے؟ اور احناف کے نزدیک کیا راجح قول ہے اور اس کی کیا دلیل ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
جواب: واضح رہے کہ امام شافعی، امام مالک اور امام احمد -رحمہم اللہ- کے نزدیک عورتوں کے استعمال کے سونے یا چاندی کے زیورات پر زکوۃ واجب نہیں ہے، البتہ احناف کے نزدیک تنہا یا دیگر اموال زکوۃ کے ساتھ نصاب تک پہنچنے کی صورت میں استعمال کے زیورات میں بھی زکوۃ واجب ہے۔ اس بارے میں ان کا مستدل درج ذیل ہے:
قرآن شریف کی آیت کا ترجمہ ہے:
(1) ترجمہ: "اور جو لوگ سونا اور چاندی کو جمع تو کرتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو آپ ان کو درد ناک عذاب کی خوشخبری سنا دیجئے"۔ (القرآن الکريم: لتوبة: 34]
(2) اسی طرح حدیث شریف میں ہے:
عبداللہ بن شداد بن الہاد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ أم المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے، وہ کہنے لگیں: میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے، آپ نے میرے ہاتھ میں چاندی کی کچھ انگوٹھیاں دیکھیں اور فرمایا: ”عائشہ! یہ کیا ہے؟“ میں نے عرض کیا: میں نے انہیں اس لیے بنوایا ہے کہ میں آپ کے لیے بناؤ سنگار کروں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تم ان کی زکاۃ ادا کرتی ہو؟“ میں نے کہا: نہیں، یا جو کچھ اللہ کو منظور تھا کہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تمہیں جہنم میں لے جانے کے لیے کافی ہیں“۔ (سنن أبي داؤد، حدیث نمبر: 1565)
چنانچہ ذکر کردہ آیت کریمہ اور حدیث مبارکہ کے اطلاق سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کے استعمال کے زیورات میں بھی زکوۃ واجب ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکريم: (التوبة، الآیة: 34)
وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ۔
سنن لأبي داؤد: (رقم الحدیث: 1565)
عن عبد الله بن شداد بن الهاد، انه قال: دخلنا على عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، فقالت: دخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم فراى في يدي فتخات من ورق، فقال:" ما هذا يا عائشة؟" فقلت: صنعتهن اتزين لك يا رسول الله، قال:" اتؤدين زكاتهن؟" قلت: لا، أو ما شاء الله، قال:" هو حسبك من النار".
الهندية: (390/1، ط: رشيدية)
تجب في كل مأتي درهم خمسة دراهم... حليا كان للرجال أو للنساء تبرا كان أو سبكية.
الموسوعة الفقهية: (263/23، ط: سعيد)
الأول: الحلي من الذهب والفضة الذي يعده مالكه لاستعماله في التحلي استعمالا مباحا. قال المالكية: ولو لإعارة أو إجارة، فلا يكون فيه زكاة عند الجمهور ومنهم الشافعية على المذهب، لأنه من باب المقتنى للاستعمال كالملابس الخاصة، وكالبقر العوامل.
وذهب الحنفية وهو قول مقابل للأظهر عند الشافعية: إلى وجوب الزكاة في الحلي، كغيرها من أنواع الذهب والفضة۔
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی