resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: طلاق کا وکیل بنانے کے بعد شوہر کا خود طلاق دینے کا حکم (27027-No)

سوال: مفتی صاحب! مسئلہ یہ ہے کہ میاں بیوی کا آپس میں جب بھی جھگڑا ہوتا تھا تو بیوی طلاق کا مطالبہ کرتی تھی، شوہر کو بھی بہت وسوسے تنگ کرتے تھے کہ جب طلاق مانگتی ہے تو دے دوں، مگر وہ رکا رہا، پھر شوہر کو خیال آیا کہ اس سے کہیں غلطی سرزد نہ ہو جائے، تو اس نے اپنے ایک مخلص دوست کو واٹس ایپ پر میسج کیا اور مندرجہ ذیل عبارت لکھی: "جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہم میاں بیوی کے آپس میں جھگڑے رہتے ہیں اور مجھ سے کئی مرتبہ بیوی نے طلاق کا مطالبہ بھی کیا، مگر میں نے طلاق نہیں دی، اب ڈر لگتا ہے کہ کہیں مجھ سے غلطی نہ ہو جائے، اس لیے میں آپ کو طلاق کے معاملے میں اپنا وکیل بناتا ہوں اور اپنے شرعی حق سے دستبردار ہوتا ہوں، آپ کو جب لگے کہ ہم دونوں اب ایک ساتھ نہیں رہ سکتے تو آپ میری بیوی کو طلاق دے دیجیے گا"
اس میسج کو دوست نے پڑھ بھی لیا، لیکن آج ہمارا پھر جھگڑا ہوا تو بیوی نے معمول کے مطابق طلاق کا مطالبہ کر دیا اور شوہر نے جھگڑے میں تین طلاقیں دے دیں تو اب کیا شوہر کے طلاق دینے سے بیوی کو طلاق ہو گئی ہے یا یہ لغو شمار ہوں گی اور جب تک وہ دوست (جس کو طلاق کا وکیل بنایا تھا) طلاق نہیں دے گا تب تک طلاق نہیں ہوگی؟رہنمائی فرمائیں

جواب: واضح رہے کہ شریعت مطہّرہ نے طلاق کا حق شوہر کو دیا ہے، البتہ شوہر اپنا یہ حق کسی اور کو وکالت کی صورت میں دے سکتا ہے، لہذا طلاق کا وکیل بنانا شرعاً درست ہے، لیکن اس کے بعد بھی شوہر طلاق دینے کا اختیار رکھتا ہے اور اس کا طلاق دینے کا حق ساقط نہیں ہوتا۔
پوچھی گئی صورت میں آپ کا اپنے دوست کو طلاق کے معاملے کا وکیل بنانا درست تھا، لیکن اس کے بعد جب آپ نے خود ہی اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں تو وہ تینوں طلاقیں واقع ہو گئیں اور وہ عورت حرمت مغلّظہ کے ساتھ آپ پر حرام ہو گئی،لہذا اب نہ رجوع ہوسکتا ہے اور نہ ہی دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

بدائع الصنائع: (کتاب الوکالة، 261/7، 262، ط: رشیدیة)
(ﻭﻣﻨﻬﺎ) : ﺃﻥ ﻳﺘﺼﺮﻑ اﻟﻤﻮﻛﻞ ﺑﻨﻔﺴﻪ ﻓﻴﻤﺎ ﻭﻛﻞ ﺑﻪ ﻗﺒﻞ ﺗﺼﺮﻑ اﻟﻮﻛﻴﻞ ﻧﺤﻮ ﻣﺎ ﺇﺫا ﻭﻛﻠﻪ ﺑﺒﻴﻊ ﻋﺒﺪﻩ، ﻓﺒﺎﻋﻪ اﻟﻤﻮﻛﻞ ﺃﻭ ﺃﻋﺘﻘﻪ ﺃﻭ ﺩﺑﺮﻩ ﺃﻭ ﻛﺎﺗﺒﻪ ﺃﻭ ﻭﻫﺒﻪ ﻭﻛﺬا ﺇﺫا اﺳﺘﺤﻖ ﺃﻭ ﻛﺎﻥ ﺣﺮ اﻷﺻﻞ....
ﻭﻛﺬا ﺇﺫا ﻭﻛﻠﻪ ﺑﻄﻼﻕ اﻣﺮﺃﺗﻪ، ﻓﻄﻠﻘﻬﺎ ﺑﻨﻔﺴﻪ ﺛﻼﺛﺎ ﺃﻭ ﻭاﺣﺪﺓ ﻭاﻧﻘﻀﺖ ﻋﺪﺗﻬﺎ؛ لانها ﻻ ﺗﺤﺘﻤﻞ اﻟﻄﻼﻕ ﺑﻌﺪ اﻟﺜﻼﺙ ﻭاﻧﻘﻀﺎء اﻟﻌﺪﺓ.

الھندیة: (کتاب الوکالة، 130/6، ط: رشیدیة)
ﻭﻛﻞ ﺭﺟﻼ ﺃﻥ ﻳﻄﻠﻖ اﻣﺮﺃﺗﻪ ﺛﻢ ﻃﻠﻖ اﻟﻢﻭﻛﻞ اﻣﺮﺃﺗﻪ ﺑﺎﺋﻨﺎ ﺃﻭ ﺭﺟﻌﻴﺎ ﻭاﻧﻘﻀﺖ ﻋﺪﺗﻬﺎ ﻓﻄﻠﻘﻬﺎ اﻟﻮﻛﻴﻞ ﻻ ﻳﻘﻊ.

نجم الفتاویٰ: (کتاب الطلاق، 296/6، ط: شعبہ نشرو اشاعت دارالعلوم یاسین القرآن)

واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Divorce