سوال:
السلام علیکم! میری عمر 49 سال ہے، چار ماہ پہلے تک مجھے بالکل نارمل طریقے سے ماہواری ہو رہی تھی، اس کے بعد 3/4 مہینے یہ صورتحال رہی کہ کسی ماہ ماہواری ہوئی اور کسی ماہ نہ ہوئی، اس مہینے جب ماہواری ہوئی تو 15 دن ہو گئے ہیں ابھی تک بلیڈنگ جاری ہے، میں نے گیارہویں دن غسل کرکے نماز قرآن پڑھنا شروع کر دیا تھا، ویسے میری عادت تو 7 دن کی ہے۔
اس ضمن میں سوالات یہ ہیں کہ
1) خون جو جاری ہے وہ بھی تو ناپاک ہے تو نماز کیسے ہو گی؟
2) کیا ہر نماز سے پہلے پیڈ اور کپڑے بدل کر نیا وضو کرنا ہو گا؟
3) نماز کے دوران ہی بلیڈنگ ہو جاتی ہے تو کیا وضو ٹوٹ جائے گا؟
تنقیح:
آپ اس بات کی وضاحت فرمائیں کہ اس مہینے سے پہلے آخری مرتبہ آپ کو جو ماہواری آئی تھی، وہ کتنے دن تھی، اس وضاحت کے بعد آپ کے سوالات کے جوابات دیے جائیں گے۔
جواب تنقیح: پانچ سے چھ دن تھی۔
جواب: پوچھی گئی صورت میں استحاضہ سے پہلے آخری مرتبہ آپ کو جتنے (پانچ یا چھ) دن خون آیا تھا، وہ اب آپ کے حیض کی عادت ہے، ان دنوں کے بعد آنے والا خون "استحاضہ" شمار ہوگا، جس میں آپ پر نماز فرض ہے اور اگر رمضان ہو تو روزے بھی فرض ہوں گے، اسی طرح استحاضہ کے دنوں میں مجامعت (ہمبستری) کرنا بھی جائز ہوگا۔
واضح رہے کہ اگر مستحاضہ کو خون مسلسل آرہا ہو اور ایک نماز کا وقت (خون جاری رہنے کے ساتھ) ایسا گزر جائے کہ پاکی اور وضو کے ساتھ نماز پڑھنے کا موقع نہ ملے تو یہ خاتون شرعی معذور ہوگی۔
استحاضہ کے دنوں میں نماز پڑھنے کا طریقہ یہ ہوگا کہ آپ بدن اور کپڑوں (لباس اور پیڈ وغیرہ) پر لگی نجاست سے پاکی حاصل کرنے کے بعد وضو کرلیں اور پھر اپنی نماز پڑھ لیں، اس دوران استحاضہ کا خون آنے سے آپ کا وضو نہیں ٹوٹے گا، البتہ نماز کا وقت نکلنے یا استحاضہ کے خون کے علاوہ وضو توڑنے والا کوئی اور سبب پائے جانے سے وضو ٹوٹ جائے گا، پھر اگر آپ کو خون اتنا مسلسل آرہا ہو کہ بدن اور کپڑے کی پاکی اور وضو کرکے نماز پڑھنے جتنا موقع نہیں ملتا بلکہ نماز پڑھنے سے پہلے ہی خون آجاتا ہے تو پھر آپ کے لیے ہر نماز سے پہلے پیڈ (Pad) اور کپڑے بدلنا ضروری نہیں، آپ خون لگے کپڑوں میں وضو کرکے اپنی نماز ادا کرسکتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
بدائع الصنائع: (27/1، ط: دار الکتب العلمیة)
(وأما) أصحاب الأعذار كالمستحاضة، وصاحب الجرح السائل، والمبطون ومن به سلس البول، ومن به رعاف دائم أو ريح، ونحو ذلك ممن لا يمضي عليه وقت صلاة إلا، ويوجد ما ابتلي به من الحدث فيه فخروج النجس من هؤلاء لا يكون حدثا في الحال ما دام وقت الصلاة قائما، حتى أن المستحاضة لو توضأت في أول الوقت فلها أن تصلي ما شاءت من الفرائض، والنوافل ما لم يخرج الوقت، وإن دام السيلان
الھندیۃ: (41/1، ط: دار الفکر)
المستحاضة ومن به سلس البول أو استطلاق البطن أو انفلات الريح أو رعاف دائم أو جرح لا يرقأ يتوضئون لوقت كل صلاة ويصلون بذلك الوضوء في الوقت ما شاءوا من الفرائض والنوافل هكذا في البحر الرائق۔۔۔۔ ويبطل الوضوء عند خروج وقت المفروضة بالحدث السابق. هكذا في الهداية وهو الصحيح .
و فیه ایضاً: (39/1، ط: دار الفكر)
انتقال العادة يكون بمرة عند أبي يوسف وعليه الفتوى. هكذا في الكافي۔
رد المحتار: (305/1، ط: ایچ ایم سعید)
(وإن سال على ثوبه) فوق الدرهم (جاز له أن لا يغسله إن كان لو غسله تنجس قبل الفراغ منها) أي: الصلاة (وإلا) يتنجس قبل فراغه (فلا) يجوز ترك غسله، هو المختار للفتوى، وكذا مريض لا يبسط ثوبه إلا تنجس فورا له تركه۔
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی