سوال:
میرے سسرالی مسئلوں کی وجہ سے میری طبیعت کافی خراب رہنے لگی ہے، اس کے باوجود گھر کے سارے کام کر رہی تھی اور جب میرے کاموں کو ضائع کیا گیا، میرے بارے میں خاندان والوں میں جھوٹ پھیلایا گیا تو میں اپنے کمرے کی ہوگئی ہوں، بڑوں کی باہمی رضامندی سے
اپنے میاں کے سارے حقوق پورے کرتی ہوں، ان کو مجھ سے کوئی شکایت نہیں ہے، ان کا سب کام بھی میں خود کرتی ہوں، میری طبیعت وغیرہ بہتر ہے جب سے الگ کمرے کی ہوئی ہوں، لیکن میری ساس سے وہ بھی برداشت نہیں ہورہا اور وہ اب کہہ رہیں کہ پھر سے گھر کے معاملات سنبھالو اور گھر والوں کے ساتھ اٹھو بیٹھو، جبکہ میں جانتی ہوں کہ ان کی فطرت نہیں بدلے گی، وہ اسی طرح کی حرکتیں کرتی رہیں گی، ورنہ دھمکی دی ہے کہ میرے شوہر کا دوسرا نکاح کروادیں گی۔
میرے میاں بھی کہہ رہے کہ گھر سنبھالو، سب کے ساتھ اٹھو بیٹھو، ورنہ امی کے گھر رہو اور جب تک وہاں نہ جاؤ جب تک ان کے گھر والوں کو اپنا نہ سمجھوں اور گھر کے کام نہ کروں۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کی امی کی غلطیاں ہیں، لیکن وہ اپنی امی کے کہنے پہ چلتے ہیں، ان کے الفاظ میرے آگے کہتے ہیں۔ آپ بتائیں مجھے کیا کرنا چاہیے؟ کیونکہ میں کچھ بھی کرلوں مجھے سب کی نظر میں گندا ہی رکھنا ہے۔ میرے میاں کو مجھ سے دور کر رہی ہیں، پھر میرے میاں مجھ سے بات کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ میں گھر بسانا چاہتی ہوں، لیکن وہ بری طرح میرے میاں پہ قابض ہیں، انہوں نے میرے سسر کا دل بھی مجھ سے خراب کردیا ہے کہ مجھے دیکھ کر منہ پھیر لیتے اور اب میرے میاں کا پیچھا لیا ہوا، یہ سارے معاملات مجھے اندر سے ختم کر رہے ہیں، خوف خدا رکھتی ہوں، الحمدللہ! ضمیر مطمئن ہے کہ میں نے کسی کے ساتھ کچھ غلط نہیں کیا، لیکن اب میرے اندر طاقت نہیں ہے کہ مزید مسئلوں میں پھنسوں اور نہ میں ان لوگوں کے ساتھ اب رہنا چاہتی ہوں اور میرے میاں الگ بھی نہیں ہورہے، میں نے کہا الگ نہ ہوں، لیکن مجھے اپنے ہی گھر میں ایک کمرے میں الگ سے رہنے دیں، اب یہ بھی نہیں کیا جارہا۔ مجھے آپ بتائیں کہ ایسی صورت میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟
جواب: واضح رہے کہ شریعت مطہّرہ نے گھر کے ہر فرد کے فرائض اور ذمّہ داریاں الگ الگ بیان کیں ہیں، اگر گھر کا ہر فرد اپنی ذمّہ داری احسن طریقے سے ادا کرے تو گھر کا نظام بحسن و خوبی چل سکتا ہے۔
سوال میں پوچھی گئی صورت میں آپ کو چاہیے کہ عرف اور رواج کے مطابق اپنی ذمّہ داریاں سنبھال لیں، اور گھر کے افراد کے ساتھ اپنا رویہ بہتر کرلیں، اور یہ سب آپ اللہ کی رضامندی کے لیے کریں، کسی سے نقد بدلہ ملنے کی امید پر نہ کریں، نیز جب تک آپ کسی سے خود اپنے بارے میں کچھ سن نہ لیں، اندازے یا کسی اور کے بتانے پر کسی کے بارے میں رائے قائم نہ کریں، اور بد گمانی سے بچیں، اگر کسی سے کچھ تکلیف پہنچے تو درگزر سے کام لیں، ان تمام اعمال کے ساتھ ساتھ اللہ کی طرف رجوع کریں اور اپنے شوہر، ساس اور سسر کے حق میں بہتری کی دعائیں کریں، بہت جلد ان شاء اللہ تعالٰی آپ ماحول کو بہتر پائیں گی۔
جہاں تک آپ کا الگ رہائش کا مطالبہ ہے تو شرعاً شوہر پر لازم ہے بیوی کے نان نفقہ اور رہائش کا انتظام کرے، رہائش سے مراد ایسا مقفّل کمرہ، باورچی خانہ اور بیت الخلاء ہے، جس میں شوہر کے گھر والوں یا کسی اور کی مداخلت نہ ہو، اور اس میں کسی دوسرے کا اشتراک نہ ہو، چنانچہ ایک الگ کمرہ جس کے ساتھ باورچی خانہ اور باتھ روم بھی ہو، اور سامان وغیرہ بحفاظت رکھ سکتی ہو اور دیگر شرعی فطری تقاضے اطمینان کے ساتھ اس میں پوری کرسکتی ہو، اس طرح کے کمرہ کا انتطام کرنا شوہر کی ذمہ داری ہے، اور یہ بیوی کا شرعی حق ہے، اس سے زیادہ کا وہ مطالبہ نہیں کرسکتی۔اگر یہ سہولت والدین کے ساتھ ایک ہی گھر میں فراہم کردے، تب بھی ذمّہ داری پوری ہوجاتی ہے، الگ جگہ پر گھر لے کر دینا ضروری نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوی الھندیۃ: (الباب السابع عشر في النفقات، 556/1، ط: ماجدية)
"تجب السكنى لها عليه في بيت خال عن أهله وأهلها إلا أن تختار ذلك".
رد المحتار: (مطلب في مسكن الزوجة، 601/3، ط: سعيد)
"إن أمكنه أن يجعل لها بيتا على حدة في داره ليس لها غير ذلك".
الھدایۃ: (417, 418، ط: رحمانیۃ)
وعلی الزوج ان یسکنھا فی دار مفردۃ لیس فیھا احد من اھلہ۔۔۔۔۔۔ ولو اسکنھا فی بیت من الدار مفردۃ ولہ غلق کفاھا۔
البحر الرائق: (193/4)
الاسکان للزوجۃ علی زوجھا فتجب لھا کما تجب النفقۃ۔۔۔ لیس لہ ان یشترک غیرھا لانھا تتضرر بہ۔
فتاوی عثمانی: (487/2، ط: مکتبۃ معارف القرآن)
فتاوی عباد الرحمن: (202/5، ط: دار الافتاء و التحقیق)
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی