سوال:
السلام علیکم! میری شادی کو 15 سال ہو چکے ہیں اور ہم دونوں میاں بیوی فی الحال آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں رہ رہے ہیں۔ ہم دونوں پاکستان سے ہیں۔ اپنی پوری شادی کے دوران، ہمیں اولاد کے لئے کئ کوششوں میں اہم چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ہم نے متعدد طبی طریقہ کار سے گزرا ہے، بشمول IUI اور IVF، جو مالی اور جذباتی طور پر ہم پر بھاری رہے ہیں، پھر بھی ہم بے اولاد ہیں۔ یہ مشکل سفر میری بیوی کی کینسر کے ساتھ جنگ کی وجہ سے مزید پیچیدہ ہو گیا، جس کے لیے وسیع کیموتھراپی کی ضرورت تھی۔ الحمدللہ، وہ صحت یاب ہو گئی ہیں، حالانکہ وہ اپنی بیماری کے دیرپا اثرات سے بھی گُزر رہی ہیں۔
15 سال کے بعد، اب میں اپنے والدین کی طرف سے بچوں کی امید میں دوبارہ شادی کرنے کے لیے شدید دباؤ میں ہوں۔ میں ایسا کرنے سے سخت ہچکچا رہا ہوں۔ میری بیوی نے ہمارے مشترکہ سفر کے دوران بہت تکلیف برداشت کی ہے، اور مجھے لگتا ہے کہ دوسری شادی اس کے ساتھ ایک بے ایمانی ہوگی۔ ہماری ایک خوشگوار اور محبت بھری شادی ہے، اور مجھے اسے چھوڑنے کی کوئی خواہش نہیں ہے۔ آسٹریلیا میں قانونی فریم ورک کی وجہ سے صورتحال مزید پیچیدہ ہے، جہاں تعدد ازدواج ممنوع ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ میں بیک وقت دو بیویاں نہیں رکھ سکتا، جو مجھے کسی ایسے انتخاب پر مجبور کرتا ہے جو میں کرنے کو تیار نہیں ہوں۔ میرا دشواری یہ ہے کہ اپنے عقیدے پر قائم رہ کر اپنے والدین کی خواہشات کو اپنے ذاتی عقائد اور قانونی ذمہ داریوں کے ساتھ متوازن کروں۔ میرے والدین کی میرا صاحب اولاد ہونا اور اُنکا پوتے پوتی کی خواہش رکھنا ایک فطری اور محبت کا انداز ہے اُنکا یہ کہنا ہے کہ میں دُوسری شادی کروں اور اپنی پہلی بیوی کو بھی ساتھ رکھوں مگر ایسا مُمکن نہیں
میں اس بارے میں رہنمائی حاصل کرنا چاہتا ہوں کہ کیا میرے والدین کے اصرار کے باوجود دوسری شادی سے انکار اسلام میں معصیت تصور کیا جائے گا۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ کیا میں قیامت کے دن جوابدہ ہوئے بغیر ان کے حکم کو نظرانداز کرسکتا ہوں؟ میرا مرکزی سوال بھی یہ ہی ہے کہ کیا والدین کی میری دُوسری شادی کی درخواست، خاص طور پر جب یہ میری ازدواجی وفاداری اور زمینی قوانین سے متصادم ہو، ایک ایسا حکم ہے جس کی مجھے اسلامی نقطہ نظر سے اطاعت کرنی چاہیے حالانکہ مُجھے اپنی بیوی سے کسی قسم کی کوئ شکایت نہیں۔
جواب: اسلام میں دوسری شادی جائز ہے اور اگر مرد عدل کر سکتا ہو تو ایک بیوی کی موجودگی میں بھی دوسری شادی کرنا بیوی کے ساتھ نا انصافی یا گناہ نہیں۔ اگر اس میں کوئی شرعی یا قانونی رکاوٹ نہ ہو تو والدین کی رضا اور نسل کی بقا کے لیے دوسری شادی کرنا فی الجملہ باعث فضیلت ہے۔
تاہم اگر آپ دوسری شادی مقامی قانون (جیسے آسٹریلیا میں) کی خلاف ورزی کی وجہ سے نہیں کرتے، یا آپ کی دوسری شادی موجودہ بیوی کی جسمانی یا ذہنی صحت پر شدید منفی اثر ڈالے، يا آپ جسمانی یامالی طور پر دو بیویوں کے متحمل نہ ہوسکتے ہوں، یا دو بیویوں کے درمیان عدل وانصاف قائم نہ رکھ سکتے ہوں تو ایسی صورت میں والدین کے مطالبے کو مؤخر کرنا یا اس پر عمل نہ کرنا شرعاً ان کی نافرمانی نہیں ہے، بشرطیکہ والدین سے حسن سلوک، ادب اور تعلق کا لحاظ باقی رکھا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الكريم: (النساء، الآية: 36)
وَٱعْبُدُوا ٱللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِۦ شَئًْا ۖ وَبِٱلْوَٰلِدَيْنِ إِحْسَانًا ●
القرآن الكريم: (النساء، الآية: 3)
فَٱنكِحُوا۟ مَا طَابَ لَكُم مِّنَ ٱلنِّسَآءِ مَثْنَىٰ وَثُلَٰثَ وَرُبَٰعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا۟ فَوَٰحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَٰنُكُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا۟ ●
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی