سوال:
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام کہ کسی عورت کا شوہر گم ( لاپتہ) ہوجائے، تو عورت دوسرا نکاح کرسکتی ہے؟
اور اگر کرسکتی ہے، تو اگر اس کا پہلا شوھر واپس آجائے، تو کیا حکم ہے؟
جواب: واضح رہے کہ مفقود(گمشدہ شوہر) کی زوجہ اگر عفت و عصمت کے ساتھ زندگی بسر کر سکے، تو یہ زیادہ بہتر ہے، البتہ اگر دوسرا نکاح کرنا چاہتی ہے، تو اس کی تین صورتیں ہیں۔
1) وہ عورت مسلمان قاضی کی عدالت میں اپنا مقدمہ پیش کرے اور گواہوں سے یہ بات ثابت کرے کہ میرا فلاں شخص سے نکاح ہوا تھا، پھر گواہوں سے اس کا لاپتہ ہونا ثابت کرے، اس کے بعد قاضی خود بھی زوج مفقود کی حد درجہ تک تلاش و تفتیش کرے، اگر اچھی طرح تلاش و جستجو کے بعد بھی شوہر کا کوئی پتہ نہ چلے، تو بیوی کو مزید چار سال تک انتظار کا حکم دے، پھر اگر ان چار سالوں میں بھی شوہر کا پتہ نہ چلے، تو بیوی دوبارہ قاضی کے پاس درخواست دائر کرے، جس پر قاضی شوہر کے مردہ ہونے کا فیصلہ سنا دے، اس کے بعد بیوی کو عدتِ وفات یعنی چار ماہ دس دن گزارنے کے بعد دوسری جگہ نکاح کرنے کا اختیار ہوگا۔
2) اگر عورت کا زنا کے فتنہ میں مبتلاء ہونے کا قوی اندیشہ ہو، تو قاضی شوہر کے لاپتہ ہونے کے وقت سے ایک سال تک انتظار کا حکم دے اور اس مدت کے دوران شوہر کا پتہ نہ چلنے کی صورت میں قاضی نکاح ختم کر سکتا ہے، پھر عدت گزارنے کے بعد عورت دوسرا نکاح کر سکتی ہے۔
3) اگر عورت کا زنا میں مبتلا ہونے کا خطرہ تو نہیں، لیکن زوج مفقود کا اتنا مال موجود نہیں جوان چار سالوں میں اس کی بیوی کے نان ونفقہ کے لئے کافی ہو ، یا بیوی کے لئے مفقود کے مال سے نان ونفقہ حاصل کرنا مشکل ہو، تو اس صورت میں اگر نان ونفقہ دینے کے بغیر کم از کم ایک ماہ گزرا ہو، تو قاضی نکاح ختم کرسکتا ہے ۔
واضح رہے کہ آخری دونوں صورتوں میں عورت عدت وفات کے بجائے عدت طلاق گزارے گی ،جو قاضی کے فیصلے کے وقت سے شمار ہوگی۔
اگر گمشدہ شوہر واپس آجائے، تو اب دوسرے شوہر سے نکاح ختم ہو جائے گا اور وہ عورت اس پہلے یعنی گمشدہ شوہر کو واپس مل جائے گی، اگر دوسرے شوہر سے خلوت صحیحہ ہوچکی ہے، تو اس کی عدت لازم ہوگی اور عدت کے بعد پہلے شوہر کا اس سے ازدواجی تعلقات قائم کرنادرست ہو گا۔
(مستفاد از فتاوی عثمانی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
اعلاء السنن: (45/13)
امرأۃ المفقود امرأتہ حتی یاتیھا البیان قال الزیلعی: لانہ یختلف باختلاف البلاد وکذا غلبۃ الظن تختلف باختلاف الاشخاص فان الملک العظیم اذا انقطع خبرہ یغلب علی الظن فی ادنی مدۃ انہ قدمات ومقتضاہ انہ یجتھدو یحکم القرائن الظاھرۃ الدالۃ علی موتہ وعلی ھذا یبتنی مافی جامع الفتاوی حیث قال واذا فقد فی المملکۃ فموتہ غالب فیحکم بہ کما اذا فقد فی وقت الملاقاۃ مع العدوا ومع قطاع الطریق ۔۔۔ وما أشبہ ذلک حکم بموتہ لانہ الغالب فی ھذہ الحالات وافتی بہ بعض مشایخنا وقال انہ افتی بہ قاضی زادہ صاحب بحر الفتاوی لکن لا یخفی انہ لابد من مدۃ طویلۃ یغلب علی الظن موتہ لا بمجرد فقدہ عند ملاقاۃ العدو اوسفر البحر ونحوہ الخ۔
رد المحتار: (کتاب المفقود، مطلب في الإفتاء بمذهب مالك في زوجة المفقود، 295/4)
قوله (خلافا لمالك ) فإن عنده تعتد زوجة المفقود عدة الوفاة بعد مضي أربع سنين وهو مذهب الشافعي القديم ۔۔۔وعند أحمد إن كان يغلب على حاله الهلاك كمن فقد بين الصفين أو في مركب قد انكسر أو خرج لحاجة قريبة فلم يرجع ولم يعلم خبره فهذا بعد أربع سنين يقسم ماله وتعتد زوجته بخلاف ما إذا لم يغلب عليه الهلاك كالمسافر لتجارة أو لسياحة فإنه يفوض للحاكم في رواية عنه وفي أخرى يقدر بتسعين من مولده كما في شرح ابن الشحنة لكنه اعترض على الناظم بأنه لا حاجة للحنفي إلى ذلك أي لأن ذلك خلاف مذهبنا فحذفه أولى وقال في الدر المنتقى ليس بأولى لقول القهستاني لو أفتى به في موضع الضرورة لا بأس به على ما أظن اھ۔۔۔ وقد قال في البزازية الفتوى في زماننا على قول مالك وقال الزاهدي كان بعض أصحابنا يفتون به للضرورة
شرح الجلیل علی مختصر الخلیل: (385/2)
فیؤجل أربع سنین ان دامت نفقتھا ۔۔۔فان لم تدم نفقتھا من مالہ فلھا التطلیق لعدم النفقۃ بلا تأجیل ، وکذا ان خشیت علی نفسھا الزنا فیزاد علی دوام نفقتھا عدم خشیتھا الزنا۔
حاشیۃ الدسوقی: (479/2)
فیؤجل أی المفقود الحر أربع سنین ان دامت نفقتھا من مالہ والا طلق علیہ لعدم النفقۃ
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی