سوال:
مفتی صاحب ! میں نے سنا ہے کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں، براہ مہربانی اس کی وضاحت فرمادیں۔
جواب: بدعت کی دوقسمیں ہیں: (١)بدعت حسنہ (٢)بدعت سیئة
بدعت حسنہ: وہ نیا کام جو شرعی اصول اور دلائل کے خلاف نہ ہو اور اسے دین کی حفاظت اورتقویت کے لیے سرانجام دیاجائے، یہ "بدعت حسنہ" کہلاتی ہے جوکہ مذموم نہیں ہے، جیسے: رسول اللہ ﷺ کےزمانہ میں مدرسہ عمارت کی شکل میں نہ تھا، صرف ایک چبوترہ تھا، اب عمارت اور کمروں والا مدرسہ ایک نیا کام ہے، لیکن بہتر کام ہے اور اسی اصل کام یعنی دینی علم کے حصول، تقویت اور حفاظت کے لیے ہے۔ اس کو لغوی اعتبار سے عربی میں "بدعت حسنہ" کہتے ہیں، یعنی "نیا اچھا کام"۔ اسی طرح اس کی مثال قرآن مجید پر اعراب لگانا اور فصل و وصل وغیرہ کی علامات لکھنا،حدیث و فقہ کی تدوین کا کام کرنا، ضرورت کی بنا پر مختلف زبانوں میں دینی موضوعات پر کتابوں کی تصنیف و اشاعت اور مدارس میں نصاب کا قیام وغیرہ کرنا ہے، یہ سب "بدعت حسنہ" کے قبیل سے ہیں۔
بدعت سیئة : ہر اس عمل کو کہتے ہیں جس کی اصل قرآن و سنت سے ثابت نہ ہو، اور وہ حضور اکرم ﷺ، صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ کے زمانے میں باوجود داعیہ اور محرک ہونے کے نہ پایا جاتا ہو اور نہ ہی اس پر قولاً، فعلاً، صراحتاً یا اشارتاً کسی طرح بھی شارع کی طرف سے اجازت موجود ہو، اور اسے دین اور ثواب کا کام سمجھ کر اختیار کیا جائے، جیسے: قبر پر اذان دینا وغیرہ۔
نوٹ: واضح رہے کہ شرعی اصطلاح کے اعتبار سے بدعت سے مراد صرف "بدعت سیئہ" ہی ہے اور یہی وہ بدعت ہے جس کی مذمت حدیث میں بیان کی گئی ہے اور اسے دین میں اپنی طرف سے اضافہ اور بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے، جبکہ "بدعت حسنہ" کو صرف لغت کے اعتبار سے بدعت کہا جاتا ہے، ورنہ درحقیقت اس کا شمار بدعت اصطلاحی میں نہیں ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
کشاف اصطلاحات الفنون و العلوم: (313/1، ط: مکتبۃ لبنان)
البدعة: بالكسر في اللغة ما كان مخترعا على غير مثال سابق، ومنه بديع السماوات والأرض أي موجدها على غير مثال سبق. قال الشافعي رحمه الله تعالى: ما أحدث وخالف كتابا أو سنة أو إجماعا أو أثرا فهو البدعة الضالة، وما أحدث من الخير ولم يخالف شيئا من ذلك فهو البدعة المحمودة. والحاصل أن البدعة الحسنة هي ما وافق شيئا مما مر، ولم يلزم من فعله محذور شرعي، وأن البدعة السيئة هي ما خالف شيئا من ذلك صريحا أو التزاما۔۔۔وفي الشرع ما أحدث على خلاف أمر الشارع ودليله الخاص أو العام۔۔۔وفي شرح النخبة وشرحه: البدعة شرعا هي اعتقاد ما أحدث على خلاف المعروف عن النبي صلى الله عليه وسلم لا بمعاندة، بل بنوع شبهة. وفي إشارة إلى أنه لا يكون له أصل في الشرع أيضا، بل مجرد إحداث بلا مناسبة شرعية أخذا من قوله صلى الله عليه وسلم «من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد»۔۔وقد فصل الشيخ عبد الحق الدهلوي في شرح المشكاة في باب الاعتصام بالكتاب والسنة فقال: اعلم بأن كل ما ظهر بعد النبي صلى الله عليه وسلم فهو بدعة. وكل ما وافق الأصول والقواعد أو القياس فتلك البدعة الحسنة. وما لم يوافق ذلك فهو البدعة السيئة والضلالة. ومفتاح «كل بدعة ضلالة» محمول على هذا.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی