عنوان: لوگوں کو نماز کے لئے بلانا(2789-No)

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب ! میں اکثر نماز کے لیے جاتے ہوئے لوگوں سے کہہ دیتا ہوں کہ چلو نماز کے لیے، مگر مجھے کسی نے کہا کہ آپ ایسا نہ کریں، کیونکہ اگر وہ آپ کے بلانے پر نہ آیا، تو اس نے اللہ کے حکم کا انکار کیا، جب کہ اللہ کے حکم کا انکار کفر ہے، بلکہ آپ ایسے کہا کریں کہ میں نماز کے لیے جا رہا ہوں۔ برائے کرم رہنمائی فرمائیں!

جواب: اگر کوئی شخص نماز کے لیے جاتے ہوئے آس پاس کے لوگوں کو نماز کے لیے بلاتا ہے کہ "چلو نماز پڑھنے کے لیے " اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے۔
حدیث شریف میں ہے کہ
عن مسلم بن ابي بكرة، عن ابيه، قال: خرجت مع النبي صلى الله عليه وسلم لصلاة الصبح" فكان لا يمر برجل إلا ناداه بالصلاة او حركه برجله".
ترجمہ:
مسلم بن ابوبکرہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت نقل فرماتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا: میں نبی اکرم ﷺکے ساتھ فجر کے لیے نکلا، تو آپ جس آدمی کے پاس سے بھی گزرتے اسے نماز کے لیے آواز دیتے یا پیر سے ہلا کر جگاتے جاتے تھے۔ (كتاب التطوع، باب الاِضْطِجَاعِ بَعْدَهَا:حدیث نمبر: 1264)
ایک اور روایت میں ہے کہ
عن انس بن مالك ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يمر بباب فاطمة ستة اشهر إذا خرج إلى صلاة الفجر، يقول: الصلاة يا اهل البيت: إنما يريد الله ليذهب عنكم الرجس اهل البيت ويطهركم تطهيرا (سورة الاحزاب آية 33). 
ترجمہ:
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاطمہ رضی الله عنہا کے دروازے کے سامنے سے چھ مہینے تک گزرتے رہے، جب فجر کے لیے نکلتے تو آپ کا معمول تھا کہ آپ آواز دیتے «الصلاة يا أهل البيت» ”اے میرے گھر والو! نماز فجر کے لیے اٹھو“ «إنما يريد الله ليذهب عنكم الرجس أهل البيت ويطهركم تطهيرا»”اللہ چاہتا ہے کہ تمہاری نجاست تم سے دور کر دے اور تمہیں پورے طور پر پاک کر دے“۔
(سنن الترمذي، أبواب تفسیر القرآن، باب ومن سورۃ الأحزاب،حدیث نمبر: 3206)
نیز واضح رہے کہ نماز پڑھنے سے انکار کرنا، اس سے کفر لازم نہیں آتا، البتہ اگر کوئی شخص نماز کے وجوب اور فرضیت کا انکار کر دے، تو ایسی صورت میں انسان کافر ہو جائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الدر المختار مع رد المحتار: (کتاب الصلوۃ، باب الأذان، 289/1، ط: دار الفکر)
(ويثوب) بين الأذان والإقامة في الكل للكل بما تعارفوه
(قوله: ويثوب) التثويب: العود إلى الإعلام بعد الإعلام درر، وقيد بتثويب المؤذن لما في القنية عن الملتقط: لا ينبغي لأحد أن يقول لمن فوقه في العلم والجاه حان وقت الصلاة سوى المؤذن؛ لأنه استفضال لنفسه. اه. بحر. قلت، وهذا خاص بالتثويب للأمير ونحوه على قول أبي يوسف فافهم.
(قوله: بين الأذان والإقامة) فسره في رواية الحسن بأن يمكث بعد الأذان قدر عشرين آية ثم يثوب ثم يمكث كذلك ثم يقيم بحر.
(قوله: في الكل) أي كل الصلوات لظهور التواني في الأمور الدينية. قال في العناية: أحدث المتأخرون التثويب بين الأذان والإقامة على حسب ما تعارفوه في جميع الصلوات سوى المغرب مع إبقاء الأول يعني الأصل وهو تثويب الفجر وما رآه المسلمون حسنا فهو عند الله حسن. اه.
(قوله: للكل) أي كل أحد، وخصه أبو يوسف بمن يشتغل بمصالح العامة كالقاضي والمفتي والمدرس واختاره قاضي خان وغيره نهر.
(قوله: بما تعارفوه) كتنحنح، أو قامت قامت، أو الصلاة الصلاة، ولو أحدثوا إعلاما مخالفا لذلك جاز نهر عن المجتبى.

الھندیة: (کتاب السیر، 268/2، ط: دار الفکر)
"وقول الرجل: لا أصلي، يحتمل أربعة أوجه: أحدها: لا أصلي؛ لأني صليت .  والثاني: لا أصلي بأمرك، فقد أمرني بها من هو خير منك . والثالث: لا أصلي فسقاً مجانةً، فهذه الثلاثة ليست بكفر.
والرابع: لا أصلي؛ إذ ليس يجب علي الصلاة، ولم أؤمر بها، يكفر . ولو أطلق وقال: لا أصلي، لا يكفر؛ لاحتمال هذه الوجوه". 

واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 768 Dec 06, 2019
logo ko namaz ke / key liye bulana, Calling people for prayers

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Salath (Prayer)

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.