سوال:
السلام علیکم، میرا سوال یہ ہے کہ کیا رفع یدین کرنا جائز ہے؟
جواب: واضح رہے کہ احناف کے ہاں وتر اور عیدین کی نمازوں کے علاوہ عام نماز میں صرف تکبیر تحریمہ کہتے وقت رفع یدین کرنا مسنون اور افضل ہے۔نیز یہاں یہ بات ذہن نشین فرمالیں کہ یہ مسئلہ افضل اور غیر افضل ہونے کا ہے (واجب اور فرض ہونے کا نہیں) لہذا جن علماء کے درمیان اس مسئلہ میں اختلاف ہوا ہے، ان میں دونوں طرف کے علماء اس بات پر متفق ہیں کہ رفع یدین کوئی فرض واجب نہیں ہے، بلکہ اختلاف صرف اس بارے میں ہے کہ رفع یدین سنت اور افضل ہے یا ترک رفع یدین افضل ہے؟ لہٰذا رفع یدین نہ کرنا ان کے نزدیک بھی گناہ نہیں ہے، جو رفع یدین کا کہتے ہیں، اسی طرح رفع یدین کرنا ان کے نزدیک بھی گناہ نہیں ہے جو ترک رفع یدین کے قائل ہیں۔اس سلسلے میں حنفی مسلک میں متعدد صحیح روایات کی بناء پر رفع یدین کا ترک کرنا افضل اور مسنون ہے۔
ذیل میں اس حدیث کو ذکر کیا جاتا ہے، جس میں ایک صحابی یہ فرماتے ہیں کہ مجھے تم میں سب سے زیادہ حضور ﷺ کی نماز یاد ہے، پھر انہوں نے حضور ﷺ کی مکمل نماز کا طریقہ بتایا اور اس میں تکبیر تحریمہ کے علاوہ کہیں اور رفع یدین کا ذکر نہیں کیا اور اہل مجلس میں سے کسی نے ان پر نکیر بھی نہیں فرمائی:
محمد بن عمرو بن عطاء نے بیان کیا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چند اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا ذکر ہونے لگا تو ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تم سب سے زیادہ یاد ہے میں نے آپ کو دیکھا کہ جب آپ تکبیر کہتے تو اپنے ہاتھوں کو کندھوں تک لے جاتے، جب آپ رکوع کرتے تو گھٹنوں کو اپنے ہاتھوں سے پوری طرح پکڑ لیتے اور پیٹھ کو جھکا دیتے۔ پھر جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اس طرح سیدھے کھڑے ہو جاتے کہ تمام جوڑ سیدھے ہو جاتے۔ جب آپ سجدہ کرتے تو آپ اپنے ہاتھوں کو (زمین پر) اس طرح رکھتے کہ نہ بالکل پھیلے ہوئے ہوتے اور نہ سمٹے ہوئے۔ پاؤں کی انگلیوں کے منہ قبلہ کی طرف رکھتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتوں کے بعد بیٹھتے تو بائیں پاؤں پر بیٹھتے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھتے اور جب آخری رکعت میں بیٹھتے بائیں پاؤں کو آگے کر لیتے اور دائیں کو کھڑا کر دیتے پھر مقعد پر بیٹھتے۔ (صحیح بخاری، حدیث نمبر:828)
اسی طرح عبداللہ بن مسعودؓ نے حضور ﷺ کی نماز پڑھ کر دکھائی اور اس میں انہوں نے تکبیر تحریمہ کے علاوہ کہیں اور رفع یدین نہیں کیا :
’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ تم آگاہ ہوجاؤ! بے شک میں تم کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھاکر دکھاتا ہوں، یہ کہہ کر نماز پڑھائی اور اپنے دونوں ہاتھوں کو صرف اول تکبیر میں اٹھایا پھر پوری نماز میں نہیں اٹھایا۔‘‘ (سنن الترمذي، باب ما جاء أن النبي صلى الله عليه وسلم لم يرفع إلا في أول مرة، برقم (257)، ط/ دار الغرب الإسلامي - بيروت)
اسی طرح صحیح مسلم میں حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس گھر سے باہر تشریف لائے تو فرمایا: "کیا بات ہے؟ تمہیں رفع یدین کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ گویا کہ وہ بدکے ہوئے گھوڑوں کی دمیں ہیں ۔ نماز میں سکون اختیار کرو ".(صحیح مسلم: 181/1)
اور یہ بات قرآن کریم کے موافق بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنین کی تعریف میں فرمایا ہے :"الذین ھم فی صلاتھم خاشعون " (سورۃ المؤمنون : ٢ )
ترجمہ :یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی نماز میں خشوع وخضوع اختیار کرتے ہیں۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کے لفظ " خاشعون " کی تفسیر میں فرماتے ہیں:" مخبتون متواضعون، لا یلتفتون یمینا ولا شمالا ولا یرفعون ایدیھم فی الصلوۃ ".( تفسیر ابن عباس : ١١٢ )
ترجمہ:خشوع اختیار کرنے والے وہ لوگ ہیں جو عاجزی اور فروتنی اختیار کرتے ہیں، دائیں بائیں متوجہ نہیں ہوتے اور نماز میں رفع یدین نہیں کرتے ہیں، چنانچہ اکابر صحابہ کرام ترک رفع یدین پر عمل پیرا تھے اور نبی اکرم ﷺ کا آخری عمل بھی یہی تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحيح البخاري: (كتاب الأذان،باب سنة الجلوس فى التشهد، رقم الحدیث:828، ط:دار طوق النجاة)
حدثنا يحيى بن بكير، قال: حدثنا الليث، عن خالد، عن سعيد، عن محمد بن عمرو بن حلحلة، عن محمد بن عمرو بن عطاء، وحدثنا الليث، عن يزيد بن ابي حبيب، ويزيد بن محمد، عن محمد بن عمرو بن حلحلة، عن محمد بن عمرو بن عطاء،" انه كان جالسا مع نفر من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، فذكرنا صلاة النبي صلى الله عليه وسلم، فقال ابو حميد الساعدي: انا كنت احفظكم لصلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم رايته إذا كبر جعل يديه حذاء منكبيه، وإذا ركع امكن يديه من ركبتيه ثم هصر ظهره، فإذا رفع راسه استوى حتى يعود كل فقار مكانه، فإذا سجد وضع يديه غير مفترش ولا قابضهما واستقبل باطراف اصابع رجليه القبلة، فإذا جلس في الركعتين جلس على رجله اليسرى ونصب اليمنى، وإذا جلس في الركعة الآخرة قدم رجله اليسرى ونصب الاخرى وقعد على مقعدته"، وسمع الليث يزيد بن ابي حبيب، ويزيد من محمد بن حلحلة، وابن حلحلة من ابن عطاء، قال ابو صالح: عن الليث كل فقار، وقال ابن المبارك: عن يحيى بن ايوب، قال: حدثني يزيد بن ابي حبيب، ان محمد بن عمرو حدثه كل فقار.
سنن الترمذي، باب ما جاء أن النبي صلى الله عليه وسلم لم يرفع إلا في أول مرة، (1/ 343) برقم (257)، ط/ دار الغرب الإسلامي - بيروت)
"عن علقمة قال: قال عبد الله بن مسعود ألا أصلي بکم صلاة رسول الله صلی الله علیه وسلم، فصلی فلم یرفع یدیه إلا في أول مرة."
صحیح مسلم: (181/1)
" عن تمیم بن طرفۃ عن جابر بن سمرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال خرج علینا رسول اللہ ﷺفقال مالی اراکم رافعی ایدیکم کانھا اذناب خیل شمس اسکنوا فی الصلوۃ ".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی