سوال:
معلوم یہ کرنا ہے کہ میری شادی 1998 میں ہوئی تھی اور حق مہر پانچ سو روپے مقرر کیا گیا تھا، لیکن وہ میں نے ابھی تک ادا نہیں کیا ہے، اب مجھے 2025 میں کتنا حق مہر ادا کرنا ہوگا؟ اور کیا میری بیوی شریعت کے مطابق حق مہر معاف کرسکتی ہے یا نہیں؟
جواب: واضح رہے کہ حقِ مہر کی حیثیت قرض کی ہوتی ہے، اور قرض کے بارے میں یہ اصول ہے کہ قرض کی ادائیگی چاہے کتنے عرصے کے بعد ہی کیوں نہ ہو، ذمہ میں واجب شدہ مقدار کے بقدر ہی واپس کرنا لازم ہوتا ہے۔
پوچھی گئی صورت میں 1998 میں نکاح کے وقت چونکہ مہر کے طور پر پانچ سو روپے مقرر ہوئے تھے، لہذا آج بھی وہی مقدار یعنی پانچ سو روپے ہی مہر کی ادائیگی آپ پر لازم ہوگی۔
البتہ اگر آپ کی بیوی کسی معاشرتی دباؤ کے بغیر اپنی خوش دلی سے یہ مہر معاف کرنا چاہے تو اس کی بھی گنجائش ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الدلائل:
الدر المختار: (840/3، ط: دار الفکر)
الديون تقضى بأمثالها.
الھندیۃ: (316/1، ط: دار الفکر)
للمرأة أن تهب مالها لزوجها من صداق دخل بها زوجها أو لم يدخل وليس لأحد من أوليائها أب ولا غيره الاعتراض عليها، كذا في شرح الطحاوي.
.
الدر المختار مع رد المحتار: (113/3، ط: دار الفکر)
(وصح حطها) لكله أو بعضه (عنه) قبل أو لا، ويرتد بالرد كما في البحر.
(قوله وصح حطها) الحط: الإسقاط كما في المغرب، وقيد بحطها لأن حط أبيها غير صحيح لو صغيرة، ولو كبيرة توقف على إجازتها، ولا بد من رضاها. ففي هبة الخلاصة خوفها بضرب حتى وهبت مهرها لم يصح لو قادرا على الضرب.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی