سوال:
مفتی صاحب! طلاق دینے کے شرعی حقوق کیا ہیں؟ براہ مہربانی رہنمائی کیجیے۔
جواب: سوال سے ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ آپ طلاق دینے کے شرعی طریقہ کے متعلق پوچھ رہے ہیں، لہذا اگر آپ کا سوال اسی کے متعلق ہے تو طلاق دینے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ عورت کو پاکی کی حالت میں ایک طلاق رجعی دے دی جائے، ایک طلاق کے بعد عدت کے اندر اگر چاہیں تو رجوع کرلیں، رجوع کرنے کی صورت میں آئندہ کے لیے دو طلاقوں کا اختیار باقی ہوگا، اور رجوع نہ کرناچاہیں تو عدت گزرنے کے بعد عورت آزاد ہوگی، وہ کسی اور سے نکاح کرناچاہے تو درست ہوگا۔ اس کو شریعت میں" طلاق احسن" کہتے ہیں۔ ایک طلاق رجعی کے بعد عورت کی عدت گزرجائے، پھر صلح کی کوئی صورت نکل آئے تو نئے مہر اور شرعی گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح بھی ہوسکتاہے، ایسی صورت میں آئندہ دو طلاقوں کا حق حاصل ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (الطلاق، الایة: 1)
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًاo
الهداية: (221/1، ط: دار إحياء التراث العربي)
قال: " الطلاق على ثلاثة أوجه حسن وأحسن وبدعي فالأحسن أن يطلق الرجل امرأته تطليقة واحدة في طهر لم يجامعها فيه ويتركها حتى تنقضي عدتها " لأن الصحابة رضي الله عنهم كانوا يستحبون أن لا يزيدوا في الطلاق على واحدة حتى تنقضي العدة فإن هذا أفضل عندهم من أن يطلقها الرجل ثلاثا عند كل طهر واحدة ولأنه أبعد من الندامة وأقل ضررا بالمرأة ولا خلاف لأحد في الكراهة.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی