سوال:
السلام علیکم،
مفتی صاحب ! کیا ٹائنز (Tiens)کمپنی کی پالیسی اسلام میں جائز ہے؟
جواب: واضح رہے کہ آج کل مارکیٹ میں اس نوعیت کی بہت سی کمپنیاں آئی ہوئی ہیں، جو اپنی چیزیں بہت مہنگے داموں فروخت کرتی ہیں اور ساتھ ساتھ آگے ممبر بنا کر اس پر کمیشن دینے کی پیشکش کرتی ہیں، لوگ کمیشن کے لالچ میں آکر کم قیمت کی چیز مہنگے داموں میں خریدتے ہیں، جو شرعاً قمار یعنی جوئے کی ایک شکل ہے۔
ٹائنز کمپنی کا مقصد بھی بذریعہ ممبرسازی لوگوں سے رقم جمع کرانا اور لوگوں کو کمیشن کارڈ کا لالچ دے کر اپنی چیزوں کو مہنگے داموں فروخت کرنا ہے، جو کہ جوئے کی ایک صورت ہے۔
ٹائنز کمپنی کا طریقہ کار یہ ہے کہ وہ اولاً صارف سے رجسٹریشن فیس لیتی ہے، جس کی مقدار بعض جگہوں پر 1250 اور بعض جگہوں پر 1150 ہے، اور بعض جگہوں پر 900 ہے، اس کے بعد کمپنی کی طرف سے ممبرکو ایک کٹ، رجسٹریشن کارڈ، کتابچہ اور مارکیٹنگ کی اجازت دی جاتی ہے، اس میں قمار یعنی جوئے کا پہلو اس طرح پایا جاتا ہے کہ ممکن ہے کہ کوئی شخص کوئی ممبر نہ بنا سکے اور اس کے 900 روپے ڈوب جائیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ بہت سے ممبربنا کر بہت سی رقم کمالے، اور اسی کو شریعت میں جوئے سے تعبیر کیا جاتا ہے کہ ایک کا فائدہ دوسرے کے نقصان پر موقوف ہو۔
کمپنی کے طریقہ کار میں جوئے کے علاوہ چند شرعی قباحتیں بھی ہیں:
(ا) اس رقم کے عوض جو کٹ یا ٹریننگ دی جاتی ہے، اس کٹ کا اس کمپنی کے علاوہ کہیں اور چلنا ممکن نہیں ہے، اگر کوئی شخص مارکیٹنگ نہ کرسکے تو اس کے لیے یہ تمام چیزیں بیکار ہیں۔
(2) کمیشن کا حقدار بننے کے لیے چار ممبر بنانا شرط ہے، اگر کوئی شخص تین ممبر بنالے اور چوتھا نہیں بنا سکے، تو اس کی محنت کا کوئی صلہ اس کو نہیں ملتا، شرعی اعتبار سے یہ جائز نہیں، اس میں ایک تو کسی شخص کی محنت رائیگاں جاتی ہے، دوسرا یہ کہ اس میں اجرت ملنے اور نہ ملنے کے درمیان دائر ہے، گویا اس طرح ہوا کہ اگر چار ممبر بنائے، تو اتنی اجرت ملے گی اور چار سے کم ممبر بنائے، تو کوئی اجرت نہیں ملے گی، یہ درست نہیں ہے۔
(3) کسی ممبر کے فائیو اسٹار بننے کے بعد کمیشن حاصل کرنے کے لیے یہ شرط ہے کہ وہ ممبر خود تین ہزار کی خریداری کرے، یہ شرط فاسد ہے۔
(4) اسی طرح نیچے والے ممبر کا زیادہ اسٹار والا ہونے کی وجہ سے اوپر والے ممبر کو کمیشن سے بالکل محروم کرنا، اس کی محنت کو ضائع کرنا ہے، جو کہ جائز نہیں ہے۔
لہذا ان تمام شرعی قباحتوں اور جوئے کے پائے جانے کی وجہ سے ٹائنز کمپنی کی ممبر شپ اختیار کرنا اور کمیشن وغیرہ کماناجائز نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (المائدہ، الایۃ: 90)
یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo
رد المحتار: (کتاب الحظر و الإباحۃ، باب الاستبراء و غیرہ، 203/4، ط: سعید)
إن القمار من القمر الذي یزداد تارۃ وینقص أخری وسمي القمار قمارا لأن کل واحد من المقامرین ممن یجوز أن یذہب مالہ إلی صاحبہ ویجوز أن یستفید مال صاحبہ وہوحرام بالنص۔
المبسوط للسرخسي: (کتاب الاجارات، باب کل رجل یصتصنع الشئ، 100/15، ط: دار المعرفۃ)
وهذه فصول (أحدها) أن يقول إن خطته اليوم فلك درهم، وإن خطته غدا فلا شيء لك وهو فاسد بالاتفاق؛ لأن هذه مخاطرة؛ فإنه شرط له على نفسه درهما إن خاطه اليوم ولنفسه عليه العمل إن لم يخطه اليوم وهو صورة القمار فكان فاسدا ولأنه يصير تقدير كلامه كأنه قال: لك أجر درهم على خياطتك، أو لا شيء ولو قال ذلك كان العقد فاسدا وكان له أجر مثله لا يجاوز درهما فهذا مثله (والفصل) الثاني أن يقول إن خطت خياطة رومية فلك درهم، وإن خطته خياطة فارسية فلك نصف درهم، أو يقول إن خطته قباء فلك درهم، وإن خطته قميصا فلك نصف درهم فعلى قول أبي حنيفة - رحمه الله - الأول العقد فاسد كله، وهو قول زفر والشافعي رحمهما الله وهو القياس، ثم رجع أبو حنيفة فقال الشرطان جائزان وهو قول أبي يوسف ومحمد وجه قوله الأول: أن العقد عليه مجهول عند العقد والبدل مجهول وجهالة أحدهما في المعارضة تكون مفسدة للعقد فجهالتهما أولى كما لو قال: بعت منك هذا العبد بألف درهم، أو هذه الجارية بمائة دينار أو زوجتك أمتي هذه بمائة درهم، أو ابنتي هذه بمائة دينار فقال: قبلت كان باطلا وهذا؛ لأن عقد الإجارة يلزم بنفسه وإذا لم يعين عليه نوعا من العمل عند العقد لا يدري بماذا يطالبه فكان العقد فاسدا ووجه قوله الآخر أنه خيره بين نوعين من العمل كل واحد منهما معلوم في نفسه
والبدل بمقابلة كل واحد منهما مسمى معلوم فيجوز العقد، كما لو اشترى ثوبين على أن له الخيار يأخذ أيهما شاء ويرد الآخر وسمى لكل واحد منهما ثمنا وهذا؛ لأن الأجر لا يجب بنفس العقد وإنما يجب بالعمل وعند العمل ما يلزمه من البدل معلوم، وكذلك عقد الإجارة في حق المعقود عليه كالمضاف وإنما ينعقد عند إقامة العمل وعند ذلك لا جهالة في المعقود عليه بخلاف النكاح والبيع فالعقد هناك ينعقد لازما في الحال والبدل يستحق بنفس العقد فإذا لم يكن معلوما عند العقد كا عقد فاسدا (والفصل) الثالث أن يقول إن خطته اليوم فلك درهم، وإن خطته غدا فلك نصف درهم فعند أبي حنيفة - رحمه الله - الشرط الأول جائز والثاني فاسد وعندهما الشرطان جائزان وفي القياس يفسد الشرطان.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی