سوال:
اگر کوئی شخص مکہ مکرمہ سے پاکستان واپس آرہا ہو، اور جہاز میں اس کی نشست ایسی ہو کہ اس کا چہرہ پاکستان (مشرق) کی طرف ہو اور پیٹھ قبلہ یعنی مکہ (مغرب) کی طرف ہو اور جہاز میں قبلہ کی طرف منہ کرنا یا کھڑے ہو کر نماز پڑھنا ممکن نہ ہو تو کیا ایسی حالت میں فرض نماز بیٹھ کر اشارے سے ادا کرنا جائز ہے؟ اور کیا ایسی نماز کے بعد زمین پر اتر کر دوبارہ پڑھنا (اعادہ) ضروری ہے؟ نیز کیا قبلہ کی طرف پیٹھ ہونے کی حالت میں نماز پڑھنا شرعی طور پر درست ہے؟ اگر قبلہ کی طرف پیٹھ ہو اور نماز پڑھ لی جائے تو کیا یہ گناہ یا بے ادبی شمار ہوگا؟ براہ کرم واضح اور مختصر شرعی رہنمائی فرما دیں۔
جواب: واضح رہے کہ نماز میں قبلہ رخ ہونا اور فرض اور واجب نماز قیام کی حالت میں ادا کرنا نماز کی درستگی کے لیے ضروری ہے، لہذا جہاز میں جہاں تک ممکن ہوسکے کھڑے ہو کر قبلہ رخ نماز ادا کی جائے، لیکن اگر اس کی کوئی ممکنہ صورت نہ بنتی ہو یا انتظامیہ کی طرف سے رکاوٹ ہو تو سیٹ پر بیٹھ کر اشاروں سے نماز ادا کرنے کی گنجائش ہے، اگرچہ نمازی کا منہ قبلہ رخ نہ ہو، لیکن جہاز سے اترنے کے بعد اس نماز کا اعادہ کیا جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
البحر الرائق: (150/1)
ﻗﻮﻟﻪ: ﻭﺗﺤﺮﺭ ﺃﻥ اﻟﻤﺮاﺩ ﺑﺎﻟﺨﻮﻑ ﻣﻦ اﻟﻌﺪﻭ ﺇﻟﺦ) ﻭﻳﻠﺤﻖ ﺑﺨﻮﻑ اﻟﻌﺪﻭ ﻭاﻟﺴﺒﻊ ﻣﺎ ﻫﻮ ﻣﺜﻠﻪ ﻛﺨﻮﻑ اﻟﺤﻴﺔ ﺃﻭ اﻟﻨﺎﺭ ﻟﻜﻦ ﺑﻌﺪ ﺯﻭاﻝ اﻟﻌﺬﺭ ﻳﺠﺐ اﻹﻋﺎﺩﺓ ﺑﺎﻟﻮﺿﻮء ﻓﻴﻤﺎ ﺇﺫا ﻛﺎﻥ ﺧﺎﺋﻔﺎ ﻣﻦ ﻋﺪﻭ ﻟﻤﺎ ﺃﻥ اﻟﻌﺬﺭ ﺟﺎء ﻣﻦ ﻗﺒﻞ اﻟﻌﺒﺎﺩ، ﻭﺫﻟﻚ ﻻ ﻳﺆﺛﺮ ﻓﻲ ﺇﺳﻘﺎﻁ ﻓﺮﺽ اﻟﻮﺿﻮء ﻛﺬا ﺫﻛﺮ ﺻﺎﺣﺐ اﻟﻬﺪاﻳﺔ ﻓﻲ اﻟﺘﺠﻨﻴﺲ، ﻭﻛﺬا اﻟﻤﺤﺒﻮﺱ ﻓﻲ اﻟﺴﺠﻦ ﻭاﻷﺳﻴﺮ ﻭاﻟﻤﻘﻴﺪ ﺧﻼﻓﺎ ﻷﺑﻲ ﻳﻮﺳﻒ ﻓﻲ اﻹﻋﺎﺩﺓ ﻭﻓﻲ ﻣﻨﻴﺔ اﻟﻤﺼﻠﻲ ﻟﻮ ﺻﻠﻰ ﺑﺎﻹﻳﻤﺎء ﻟﺨﻮﻑ ﻋﺪﻭ ﺃﻭ ﺳﺒﻊ ﺃﻭ ﻣﺮﺽ ﺃﻭ ﻃﻴﻦ ﻻ ﻳﻌﻴﺪ ﺑﺎﻹﺟﻤﺎﻉ ﻭاﻟﻘﻴﺪ ﺇﺫا ﺻﻠﻰ ﻗﺎﻋﺪا ﻳﻌﻴﺪ ﻋﻨﺪ ﺃﺑﻲ ﺣﻨﻴﻔﺔ ﻭﻣﺤﻤﺪ ﺧﻼﻓﺎ ﻷﺑﻲ ﻳﻮﺳﻒ. اﻩ. اﺑﻦ ﻣﻠﻚ ﻋﻠﻰ اﻟﺘﺤﻔﺔ.
خلاصة الفتاوی: (51/1، ط: رشیدیہ)
وشرائطھا ست الطھارة من النجاسة الحکمية والحقیقیة .... واستقبال القبلة. وارکان الصلوة خمسة القیام والقراءة والرکوع والسجود والقعدة الاخیرة.
وفیه ایضاً: (193/1، ط: رشیدیہ)
فاما صلوة الفرض علی الدابة بالعذر فجائزة ومن الاعذار المطر عن محمد اذا كان الرجل في السفر فامطرت السماء فلم يجد مكانا يابسا ينزل للصلاة فانه يقف على الدابة مستقبل القبلة ويصلي بالايماء اذا امكنه ايقاف الدابة وان لم يمكنه يصلي مستدبر القبلة.
الحلبي الكبير: (ص: 190، ط: نعمانية)
الشرط الرابع وهو استقبال القبلة كان الأنسب ان يؤخر عن الوقت لاتصاله بالنية غالبا بخلاف الوقت الا انه قدمه عليه لزيادة اهتمام به لاحتياج كل صلاة اليه فرضا كانت او غيره بخلاف الوقت.
وفیه ایضاً: (ص: 229، ط: نعمانية)
والثانية من الفرائض القيام ولو صلى الفريضة قاعدا مع القدرة على القيام لا تجوز صلاته بخلاف النافلة.
امداد المفتین: (3/175)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص کراچی