resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: بیوی کا شوہر کے والدین سے الگ رہنے اور شوہر کو مارنے اور ان سے باہر کے کھانے کھلانے کا مطالبہ کرنا (29134-No)

سوال: السلام علیکم! ایک صاحب کا ایک ہی بیٹا ہے، ان کی بہو الگ رہنے کا مطالبہ کر رہی ہے، ساس سسر کی بات کی کوئی وقعت نہیں ہے نہ ہی شوہر کو خاطر میں لاتی ہے، شوہر کو مارتی بھی ہے، شوہر کو سونے نہیں دیتی، وہ ڈیوٹی سے آتا ہے تو اپنے مطالبات رکھ دیتی ہے جو میں کہوں وہ کرو ہر وقت باہر گھومنا چاہتی ہے باہر کے کھانے کھانا ہر وقت چاہیے۔
ایسی صورت میں ساس، سسر اور شوہر کو کیا کرنا چاہیے؟ نیز زیادہ تر میکہ میں رہنا چاہتی ہے، شوہر کے گھر رہنا پسند نہیں کرتی۔

جواب: پوچھی گئی صورت میں اگر ذکر کردہ تفصیلات واقعتاً درست ہیں تو اس عورت کا اپنے شوہر کے ساتھ مذکورہ رویّہ شرعی واخلاقی اعتبار سے انتہائی بُرا ہے، لہذا دونوں طرف سے خاندان کے معتبر لوگوں کو چاہیے کہ وہ اس عورت کو راضی کرکے اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کریں کہ وہ اس رویّہ کو ترک کرکے خالصتاً اللہ کی رضا کے لیے علیحدہ گھر کے مطالبہ کے بجائے اسی گھر میں شوہر کے والدین کو اپنے والدین سمجھ کر اخلاقاً ان کے ساتھ رہے، اور ایک بہو اور بیٹی ہونے کے ناطے جتنا ہوسکے، اس کے والدین کی اخلاقاً خدمت کرتی رہے، اور ساتھ ہی مناسب طریقے سے مذکورہ شخص کے والدین کو سمجھایا جائے کہ وہ بھی بہو کو اپنی بیٹی سمجھ کر اس کے ساتھ زندگی گزاریں، اور اگر کسی کی طرف سے کوئی سخت بات بھی ہوجائے تو ایک بیٹی اور والدین ہونے کے ناطے ایک دوسرے کو معاف کیا جائے۔
نیز مذکورہ شخص کو بھی سمجھایا جائے کہ وہ اس عورت کے جائز مطالبات کو بروقت پورا کرنے کی کوشش کرے، یقیناً اس رویّہ کو اپنانے سے ان کا گھر معاشرے میں ایک بے مثال گھرانہ بن جائے گا، اس کے ساتھ ساتھ ہر ایک اخروی طور پر بڑے اجر کا بھی مستحق ہوگا۔
تاہم اس طرح سے کوشش کے باوجود اگر پھر بھی معاملہ حل نہ ہو اور بیوی الگ رہنے پر بضد رہے تو وہ اس قسم کی الگ رہائش کے مطالبہ میں حق بجانب ہوگی، جس میں کم از کم اس کے لیے ایک ایسا کمرہ، کچن اور بیت الخلاء کا انتظام کرنا شوہر پر لازم ہوگا، جس میں کسی دوسرے کا اشتراک اور عمل دخل نہ ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الدلائل:

القرآن الكريم: (النساء، الآية: 35)
وَإِنۡ خِفۡتُمۡ شِقَاقَ بَیۡنِهِمَا فَٱبۡعَثُوا۟ حَكَمࣰا مِّنۡ أَهۡلِهِۦ وَحَكَمࣰا مِّنۡ أَهۡلِهَاۤ إِن یُرِیدَاۤ إِصۡلَٰحࣰا یُوَفِّقِ ٱللَّهُ بَیۡنَهُمَاۤۗ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلِیمًا خَبِیرا.

بدائع الصنائع: (23/4، ط: دار الکتاب الاسلامی)
ولو أراد الزوج أن يسكنها مع ضرتها أو مع أحمائها كأم الزوج وأخته وبنته من غيرها وأقاربه فأبت ذلك؛ عليه أن يسكنها في منزل مفرد؛ لأنهن ربما يؤذينها ويضررن بها في المساكنة وإباؤها دليل الأذى والضرر ولأنه يحتاج إلى أن يجامعها ويعاشرها في أي وقت يتفق ولا يمكنه ذلك إذا كان معهما ثالث حتى لو كان في الدار بيوت ففرغ لها بيتا وجعل لبيتها غلقا على حدة قالوا: إنها ليس لها أن تطالبه ببيت آخر.

رد المحتار: (601/3، ط: دارالفكر بيروت )
قلت: والحاصل أن المشهور وهو المتبادر من إطلاق المتون أنه يكفيها بيت له غلق من دار سواء كان في الدار ضرتها أو أحماؤها. وعلى ما فهمه في البحر من عبارة الخانية وارتضاه المصنف في شرحه لا يكفي ذلك إذا كان في الدار أحد من أحمائها يؤذيها، وكذا الضرة بالأولى. وعلى ما نقله المصنف عن ملتقط صدر الإسلام يكفي مع الأحماء لا مع الضرة، وعلى ما نقلنا عن ملتقط أبي القاسم وتجنيسه للأسروشني أن ذلك يختلف باختلاف الناس، ففي الشريفة ذات اليسار لا بد من إفرادها في دار، ومتوسط الحال يكفيها بيت واحد من دار. ومفهومه أن من كانت من ذوات الإعسار يكفيها بيت ولو مع أحمائها وضرتها كأكثر الأعراب وأهل القرى وفقراء المدن الذين يسكنون في الأحواش والربوع، وهذا التفصيل هو الموافق، لما مر من أن المسكن يعتبر بقدر حالهما، ولقوله تعالى - {أسكنوهن من حيث سكنتم من وجدكم} [الطلاق: ٦]- وينبغي اعتماده في زماننا هذا فقد مر أن الطعام والكسوة يختلفان باختلاف الزمان والمكان، وأهل بلادنا الشامية لا يسكنون في بيت من دار مشتملة على أجانب، وهذا في أوساطهم فضلا عن أشرافهم إلا أن تكون دارا موروثة بين إخوة مثلا، فيسكن كل منهم في جهة منها مع الاشتراك في مرافقها، فإذا تضررت زوجة أحدهم من أحمائها أو ضرتها وأراد زوجها إسكانها في بيت منفرد من دار لجماعة أجانب وفي البيت مطبخ وخلاء يعدون ذلك من أعظم العار عليهم، فينبغي الإفتاء بلزوم دار من بابها، نعم ينبغي أن لا يلزمه إسكانها في دار واسعة كدار أبيها أو كداره التي هو ساكن فيها؛ لأن كثيرا من الأوساط والأشراف يسكنون الدار الصغيرة، وهذا موافق لما قدمناه عن الملتقط من قوله اعتبارا في السكنى بالمعروف،إذ لا شك أن المعروف يختلف باختلاف الزمان والمكان، فعلى المفتي أن ينظر إلى حال أهل زمانه وبلده، إذ بدون ذلك لا تحصل المعاشرة بالمعروف، وقد قال تعالى - {ولا تضاروهن لتضيقوا عليهن} [الطلاق: ٦]-.

واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Nikah