سوال:
مفتی صاحب! لڑکی کو طلاق ہو چکی ہے، اس کا ایک بیٹا بھی ہے، اسکول میں جاب کرتی ہے مگر خرچہ پورا نہیں ہوتا، باپ اور بھائی ہیں اور باپ کی دو بیویاں ہیں، ایک بیوی جاب سے ریٹائر ہو چکی ہے اس کی پینشن پر گزارا ہوتا ہے، باپ کو ایک معمولی رقم (کہیں پیسے انویسٹ کیے ہوئے ہیں ان سے) ملتی ہے، بھائی کی اچھی جاب ہے اور ابھی غیر شادی شدہ ہے۔
سوال یہ ہے کہ لڑکی کو جو اضافی رقم کی ضرورت ہوتی ہے، وہ کہتی ہے کہ باپ کے ذمہ ہے، باپ کو جو معمولی رقم ملتی ہے، دونوں میں سے کسی بیوی کو نہیں دیتا، بلکہ بیٹی کا اضافی خرچ پورا کرتا ہے، شرعی لحاظ سے اس معاملے میں باپ کی کیا ذمہ داری ہے؟ رہنمائی فرمادیں۔
جواب: پوچھی گئی صورت میں اگر مذکورہ عورت کا گزارہ اپنی ملازمت کی تنخواہ پر ہو رہا ہے تو اس کے اضافی اخراجات کو پورا کرنا والد کے ذمہ لازم نہیں ہے، البتہ اگر تنخواہ سے اس کی بنیادی ضروریات (کھانا، پینا اور لباس وغیرہ) پوری نہیں ہورہی ہیں تو اس صورت میں اس کی ضروریات کو پورا کرنے کی حد تک والد کے لیے اپنی استطاعت کے مطابق خرچ دینے کی ذمہ داری ہوگی، لیکن والد کے ذمہ چونکہ اپنی بیوی کا نان نفقہ بھی لازم ہوتا ہے، لہذا والد کو اپنی دونوں بیویوں کے نان نفقہ کی بھی رعایت رکھنی چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الدلائل:
سنن إبن ماجة: (634/4، رقم الحديث: 3667، ط: دار الرسالة العالمية)
عن سراقة بن مالك، أن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "ألا أدلكم على أفضل الصدقة؟ إبنتك مردودة إليك، ليس لها كاسب
الدر المختار مع رد المحتار: (614/3، ط: دار الفكر)
(وكذا) تجب (لولده الكبير العاجز عن الكسب) كأنثى مطلقا وزمن.
(قوله كأنثى مطلقا) أي ولو لم يكن بها زمانة تمنعها عن الكسب فمجرد الأنوثة عجز إلا إذا كان لها زوج فنفقتها عليه ما دامت زوجة وهل إذا نشزت عن طاعته تجب لها النفقة على أبيها محل تردد فتأمل، وتقدم أنه ليس للأب أن يؤجرها في عمل أو خدمة، وأنه لو كان لها كسب لا تجب عليه.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی