سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! میں نے آپ سے ایک مسئلہ چھوٹا سا پوچھنا ہے کہ تسبیح فاطمہ کی ترتیب کیسے ہے؟ میں نے سنا ہے کہ کہ تسبیح فاطمہ کی درست ترتیب نبی کریم ﷺ کی تعلیم کے مطابق یہ ہے کہ پہلے 34 بار اللّٰهُ أَكْبَرُ، پھر 33 بار الْحَمْدُ لِلّٰهِ اور پھر آخر میں 33 بار سُبْحَانَ اللّٰهِ۔ یہ ترتیب صحیح بخاری (حدیث 6318) اور صحیح مسلم (2727) دونوں میں آئی ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، جبکہ بعض لوگ اسے الٹی ترتیب سے (یعنی پہلے سبحان اللہ، پھر الحمد للہ اور پھر آخر میں اللہ اکبر) پڑھتے ہیں جو کہ خلاف سنت ہے۔ براہ کرم آپ صحیح رہنمائی فرمادیں۔
جواب: واضح رہے کہ بخاری شریف میں تسبیح فاطمی کا ذکر ایک سے زائد روایات میں آیا ہے، ان میں بعض روایات میں تسبیح، تحمید اور تکبیر میں مختلف ترتیب مذکورہ ہے، یہ تمام روایات صحیح اور قابل عمل ہیں، اس لیے کسی بھی ایک طریقہ کے مطابق تسبیح پڑھنے سے مقصد پورا ہو جائے گا، کسی ایک ترتیب پر اصرار کرنا اور دوسرے کو خلافِ سنت کہنا غلط اور حقیقت کے خلاف ہے، بخاری شریف ہی کی ایک حدیث شریف (نمبر: 5361) میں پہلے تسبیح پھر تحمید اور تکبیر کا ذکر موجود ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح البخاری: (رقم الحدیث: 5361، ط: دار طوق النجاۃ)
عن ابن ابي ليلى، حدثنا علي،" ان فاطمة عليهما السلام اتت النبي صلى الله عليه وسلم تشكو إليه ما تلقى في يدها من الرحى وبلغها انه جاءه رقيق فلم تصادفه، فذكرت ذلك لعائشة، فلما جاء اخبرته عائشة، قال: فجاءنا وقد اخذنا مضاجعنا، فذهبنا نقوم، فقال: على مكانكما، فجاء فقعد بيني وبينها حتى وجدت برد قدميه على بطني، فقال: الا ادلكما على خير مما سالتما إذا اخذتما مضاجعكما او اويتما إلى فراشكما؟ فسبحا ثلاثا وثلاثين، واحمدا ثلاثا وثلاثين، وكبرا اربعا وثلاثين، فهو خير لكما من خادم۔
مرقاۃ المفاتیح: (340/5، ط: فیصل کتب خانه)
فَقَالَ قَبْلَ الْجَوَابِ "إِذَا أَخَذْتُمَا مَضْجَعَكُمَا فَسَبِّحَا ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَاحْمَدَا ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَكَبِّرَا أَرْبَعًا وَثَلَاثِين" قَالَ الْجَزَرِيُّ فِي شَرْحِهِ لِلْمَصَابِيحِ: فِي بَعْضِ الرِّوَايَاتِ الصَّحِيحَةِ التَّكْبِيرُ أَوَّلًا، وَكَانَ شَيْخُنَا الْحَافِظُ ابْنُ كَثِيرٍ يُرَجِّحُهُ وَيَقُولُ: تَقَدُّمُ التَّسْبِيحِ يَكُونُ عَقِيبَ الصَّلَاةِ وَتَقَدُّمُ التَّكْبِيرِ عِنْدَ النَّوْمِ، أَقُولُ: الْأَظْهَرُ أَنَّهُ يُقَدَّمُ تَارَةً وَيُؤَخَّرُ أُخْرَى عَمَلًا بِالرِّوَايَتَيْنِ وَهُوَ أَوْلَى وَأَحْرَى مِنْ تَرْجِيحِ الصَّحِيحِ عَلَى الْأَصَحِّ مَعَ أَنَّ الظَّاهِرَ أَنَّ الْمُرَادَ تَحْصِيلُ هَذَا الْعَدَدِ وَبِأَيِّهِنَّ بُدِئَ لَا يَضُرُّ كَمَا وَرَدَ فِي سُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدِ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ لَا يَضُرُّكَ بِأَيِّهِنَّ بَدَأْتَ، وَفِي تَخْصِيصِ الزِّيَادَةِ بِالتَّكْبِيرِ إِيمَاءٌ إِلَى الْمُبَالَغَةِ فِي إِثْبَاتِ الْعَظَمَةِ وَالْكِبْرِيَاءِ فَإِنَّهُ يَسْتَلْزِمُ الصِّفَاتِ التَّنْزِيهَيَّةَ وَالثُّبُوتِيَّةَ الْمُسْتَفَادَةَ مِنَ التَّسْبِيحِ وَالْحَمْدِ، وَاللَّهُ أَعْلَمُ
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی