سوال:
دیکھنے میں آیا ہے کہ نوے فیصد مسجدوں میں فرض نماز جو پڑھائی جاتی ہے وہ اوسطاً سات منٹ کی ہوتی ہے، ان سات منٹ میں وہ بہت مختصر تلاوت کر پاتے ہیں، جب ان کو یہ کہا جاتا ہے کہ عشاء کی نماز یا فجر کی نماز میں لمبی تلاوت کریں تو وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ احادیث میں آتا ہے کہ مختصر نماز پڑھانی چاہیے کیونکہ اس میں کمزور اور ضعیف لوگ بھی ہوتے ہیں۔
جمعہ کی نماز کے بارے میں احادیث میں آتا ہے کہ تلاوت زیادہ کی جائے، جیسے سورہ اعلی پہلی رکعت میں اور دوسری رکعت میں سورہ غاشیہ پڑھی جائے، اسی طرح جمعہ والے دن فجر کی نماز میں پہلی رکعت میں سورہ حم سجدہ اور دوسری رکعت میں سورہ دہر پڑھی جائے تو جب ہم کہتے ہیں کہ یہ پڑھیں تو پھر وہ یہی جواب دیتے ہیں کہ لوگ کمزور اور ضعیف ہو گئے ہیں تو وہ مختصر نماز پڑھا دیتے ہیں۔ جمعے سے پہلے سنتوں کا ٹائم ہمیں دیا جاتا ہے، وہ زیادہ سے زیادہ پانچ منٹ دیتے ہیں، پانچ منٹ میں خود بھی نماز پڑھتے ہیں اور ہمیں بھی پڑھاتے ہیں۔ اس سے تربیت ہماری یہ ہو جاتی ہے کہ ہم نے پانچ منٹ میں چار رکعتیں پڑھنی ہیں۔
ان سب باتوں کے ضمن میں معلوم یہ کرنا ہے کہ امام کو کم سے کم کتنے منٹ کی نماز پڑھانی چاہیے اور ان مخصوص نمازوں میں مخصوص سورتوں کو پڑھنا چاہیے یا نہیں؟ نیز ہلکی نماز سے کیا مراد ہے؟ اس کی وضاحت فرمادیں اور کیا ہمارے علماء کرام کو ہماری فرض نماز بہتر کرنے کے لیے کچھ کرنا چاہیے یا جیسے ہو رہا ہے وہ ٹھیک ہے؟ اس میں آپ ہماری رہنمائی فرمائیں۔
جواب: واضح رہے کہ امام اور منفرد دونوں کے لیے حالتِ اقامت میں فرض نمازوں میں مسنون مقدار کے مطابق قراءت کرنا مسنون ہے۔ مسنون تلاوت کی مقدار سے مراد یہ ہے کہ فجر اور ظہر کی نماز میں طوالِ مفصّل (سورہ حجرات سے سورہ بروج تک) میں سے کوئی سورت پڑھنا، عصر اور عشاء کی نماز میں اوساط مفصّل (سورہ الطارق سے سورة البیّنة تک) میں سے کوئی سورت پڑھنا اور مغرب کی نماز میں قصار مفصّل (یعنی سورہ زلزال سے آخر قرآن تک) میں سے کوئی سورت پڑھنا مسنون ہے، لہذا امام کے لیے سنّت یہی ہے کہ عام حالات میں مسنون قراءت کے مطابق ہی نماز پڑھائے، بلا عذر شرعی مسنون تلاوت کے ترک کی عادت بنانا درست نہیں ہے، البتہ چونکہ جماعت میں بیمار، کمزور اور بوڑھے ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں، اس لیے امام ان کی رعایت میں کبھی کبھار مسنون قراءت ترک کرسکتا ہے۔
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ائمہ کو جماعت کی نماز میں مقتدیوں کی رعایت کی تعلیم دی ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب کوئی تم میں سے لوگوں کو نماز پڑھائے تو ہلکی نماز پڑھائے، کیونکہ جماعت میں کمزور، بیمار اور بوڑھے (ہر طرح) کے لوگ ہوتے ہیں، لیکن جب اکیلا نماز پڑھے تو جس قدر جی چاہے طول پڑھ سکتا ہے۔ (صحيح بخاري، حدیث: 703)
اسی طرح حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے طویل نماز پڑھانے پر ایک صحابی نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے اس فعل پر نکیر فرمائی، چنانچہ اس صحابی نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ عذر پیش کیا: یا رسول اللہ! ہم لوگ دن بھر اونٹوں سے کھیتوں کی سینچائی کرنے والے لوگ ہیں، اور اپنے ہاتھوں سے محنت اور مزدوری کا کام کرتے ہیں (اس لیے تھکے ماندے رہتے ہیں) جبکہ معاذ نے آکر ہماری امامت کی اور سورۃ البقرہ کی قراءت شروع کر دی (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے معاذ! کیا تم لوگوں کو فتنے اور آزمائش میں ڈالو گے؟ کیا تم لوگوں کو فتنے اور آزمائش میں ڈالو گے؟ فلاں اور فلاں سورۃ پڑھا کرو"۔ راوی ابو زبیر نے کہا کہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا): "تم «سبح اسم ربك الأعلى»، «والليل إذا يغشى» پڑھا کرو"، ہم نے حضرت عمرو بن دینار سے ذکر کیا تو انہوں نے کہا: میرا بھی خیال ہے کہ آپ ﷺ نے اسی کا ذکر کیا ہے۔ (سنن ابي داود، حدیث نمبر: 790)
اسی طرح خود جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز معوّذتین (سورۃ الفلق اور سورۃ الناس) کے ساتھ پڑھائی (سنن نسائی، حدیث نمبر: 953) حالانکہ آپ کا فجر میں عام معمول ساٹھ سے سو آیات کے درمیان تلاوت کرنے کا تھا۔ (سنن نسائی، حدیث نمبر: 948)
اور بہتر یہ ہے کہ عذر کی صورت میں اگر امام مسنون سورتوں میں سے سب سے مختصر سورت کی تلاوت کرے تو یہ زیادہ بہتر ہوگا۔
مذکورہ بالا تفصیل پنج وقتہ نمازوں سے متعلق تھی، البتہ جمعہ کی نماز یا جمعہ کی فجر کی نماز میں احادیث میں وارد سورتوں کا پڑھنا مستحب ہے، اس لیے امام کو چاہیے کہ کبھی کبھار وہ سورتیں بھی پڑھ لیا کرے، لیکن چونکہ یہ قراءت مستحب کے درجے میں ہے، لہذا ان سورتوں کے پڑھنے پر امام کو مجبور کرنا درست نہیں ہے۔
اس کے علاوہ سنتوں میں مخصوص سورتوں کا پڑھنا یا ان کی ادائیگی کے لیے کوئی مخصوص دورانیہ شرعاً مقرر نہیں ہے، بلکہ اگر سنت کی ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد ایک بڑی آیت یا تین چھوٹی آیتیں پڑھی جائیں تو اس سے واجب کی ادائیگی ہو جاتی ہے اور عموماً پانچ منٹ کے دورانیے میں اس ترتیب پر چار رکعت ادا کرنا ممکن ہے۔ تاہم اگر سائل کے لیے پانچ منٹوں میں چار رکعت پڑھنا دشوار ہو تو اسے چاہیے کہ جمعہ کی نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد ہی گھر میں چار رکعت سنت نماز ادا کرلیا کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح البخاری: (رقم الحدیث: 703، 136/1، ط: دار طوق النجاة)
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال: اخبرنا مالك، عن ابي الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" إذا صلى احدكم للناس فليخفف، فإن منهم الضعيف والسقيم والكبير، وإذا صلى احدكم لنفسه فليطول ما شاء".
سنن ابی داود: (رقم الحدیث: 790، 93/2، دار الرسالة العالمية)
حدثنا احمد بن حنبل، حدثنا سفيان، عن عمرو، وسمعه من جابر، قال:" كان معاذ يصلي مع النبي صلى الله عليه وسلم، ثم يرجع فيؤمنا، قال مرة: ثم يرجع فيصلي بقومه، فاخر النبي صلى الله عليه وسلم ليلة الصلاة، وقال مرة: العشاء، فصلى معاذ مع النبي صلى الله عليه وسلم، ثم جاء يؤم قومه فقرا البقرة، فاعتزل رجل من القوم، فصلى، فقيل: نافقت يا فلان، فقال: ما نافقت، فاتى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: إن معاذا يصلي معك، ثم يرجع فيؤمنا يا رسول الله، وإنما نحن اصحاب نواضح ونعمل بايدينا، وإنه جاء يؤمنا فقرا بسورة البقرة، فقال: يا معاذ، افتان انت، افتان انت، اقرا بكذا، اقرا بكذا، قال ابو الزبير: ب سبح اسم ربك الاعلى، والليل إذا يغشى". فذكرنا لعمرو، فقال: اراه قد ذكره.
سنن النسائی: (رقم الحدیث: 948، ط: مکتبة المطبوعات)
اخبرنا محمد بن إسماعيل بن إبراهيم قال: حدثنا يزيد، قال: انبانا سليمان التيمي، عن سيار يعني ابن سلامة، عن ابي برزة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم:" كان يقرا في صلاة الغداة بالستين إلى المائة".
سنن النسائی: (رقم الحدیث: 953، ط: مکتبة المطبوعات)
عن عقبة بن عامر،" انه سال النبي صلى الله عليه وسلم عن المعوذتين قال عقبة: فامنا بهما رسول الله صلى الله عليه وسلم في صلاة الفجر".
الدر المختار مع رد المحتار: (439/1، ط: دار الفکر)
(و) يسن (في الحضر) لإمام ومنفرد، ذكره الحلبي، والناس عنه غافلون (طوال المفصل) من الحجرات إلى آخر البروج (في الفجر والظهر، و) منها إلى آخر - لم يكن - (أوساطه في العصر والعشاء، و) باقية (قصاره في المغرب) أي في كل ركعة سورة مما ذكره الحلبي واختار في البدائع عدم التقدير، وأنه يختلف بالوقت والقوم والإمام.
قوله واختار في البدائع عدم التقدير إلخ) وعمل الناس اليوم على ما اختاره في البدائع رملي. والظاهر أن المراد عدم التقدير بمقدار معين لكل أحد وفي كل وقت، كما يفيده تمام العبارة، بل تارة يقتصر على أدنى ما ورد كأقصر سورة من طوال المفصل في الفجر، أو أقصر سورة من قصاره عند ضيق وقت أو نحوه من الأعذار، «لأنه - صلى الله عليه وسلم - قرأ في الفجر بالمعوذتين لما سمع بكاء صبي خشية أن يشق على أمه» وتارة يقرأ أكثر ما ورد إذا لم يمل القوم، فليس المراد إلغاء الوارد ولو بلا عذر، ولذا قال في البحر عن البدائع: والجملة فيه أنه ينبغي للإمام أن يقرأ مقدار ما يخف على القوم ولا يثقل عليهم بعد أن يكون على التمام، وهكذا في الخلاصة اه
خلاصة الفتاوی: (93/1، ط: رشیدیه)
وفی الاصل القراءة فی صلوۃ الفجر فی السفر یقرا بفاتحة الکتاب وایّة سورة شاء وفی الحضر فی الرکعتین اربعین او خمسین او ستین آیة سوی الفاتحة الی مائة آیة. ویبتنی ھذا علی اختلاف احوال الناس فی الصیف و الشتاء وحسن صوت الامام وقوۃ القوم و ضعفھم فیقرا بحسب ما یری المصلحة.
الدر المختار مع رد المحتار: (544/1، ط: دار الفکر)
(ولا يتعين شيء من القرآن لصلاة على طريق الفرضية) بل تعين الفاتحة على وجه الوجوب (ويكره التعيين) كالسجدة و - {هل أتى} [الإنسان: ١]- لفجر كل جمعة، بل يندب قراءتهما أحيانا
امداد المفتین: (233/3)
ااحسن الفتاوی: (73/3)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی