سوال:
مفتی صاحب! سوال یہ ہے کہ گھر میں داخل ہونے کی دعا میں خالی بسم اللہ پڑھنا کافی ہے یا پوری دعا جو ذکر کی جاتی ہے وہ پڑھنا ضروری ہے؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص گھر میں داخل ہوتے وقت دعا پڑھنا یا بسم اللہ پڑھنا بھول جائے تو اس صورت میں کیا کرے؟ کیونکہ میں نے سنا ہے کہ جب آدمی اپنے گھر میں داخل ہوتے ہوئے دعا پڑھ لیتا ہے تو شیطان اپنے چیلوں سے کہتا ہے کہ آج اس گھر میں تمہارا ٹھکانہ کوئی نہیں ہے اور اگر وہ گھر میں داخل ہوتے ہوئے بسم اللہ نہیں پڑھتا تو شیطان اپنے چیلوں سے کہتا ہے کہ آج رات کا ٹھکانہ تو مل گیا۔ اس سلسلے میں پوچھنا یہ ہے کہ اگر کوئی گھر میں داخل ہوتے وقت دعا پڑھنا بھول جائے تو پھر وہ کیا کرے؟
جواب: واضح رہے کہ بعض روایات میں گھر کے اندر داخل ہونے سے متعلق یہ دعا وارد ہوئی ہے:
"اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ خَيْرَ الْمَوْلَجِ وَخَيْرَ الْمَخْرَجِ، بِاسْمِ اللَّهِ وَلَجْنَا، وَبِاسْمِ اللَّهِ خَرَجْنَا، وَعَلَى اللَّهِ رَبِّنَا تَوَكَّلْنَا". (سنن أبي داود، حديث نمبر: 5096)
اگرچہ بعض حضرات نے اس روایت کی سند پر کلام کیا ہے، لیکن امام ابوداودؒ کا اس حدیث کو نقل کرکے اس پر سکوت اختیار کرنا ان کے نزدیک اس کے قابلِ استدلال ہونے کی دلیل ہے، اس لیے یہ روايت قابلِ استدلال ہے اور اسی لیے یہ دعا ماثور دعاؤں کے ساتھ ذکر کی جاتی ہے، یہ دعا حدیث کی بعض دیگر کتب جیسے امام طبرانیؒ کی "المعجم الکبیر" اور امام بیہقیؒ کی "الدعوات الکبیر" میں بھی موجود ہے۔
نیز بعض روایات میں گھر میں داخل ہوتے وقت "يسمي الله"، "يذكر الله" یا ان سے ملتے جلتے الفاظ بھی وارد ہوئے ہیں، جس کا مطلب ہے: "اللہ کا نام لینا"، "اللہ کا ذکر کرنا" چنانچہ ايک روایت ميں ہے اور يہ وہی روایت ہے جس کا سوال میں حوالہ دیا گیا ہے:
عن جابر بن عبد الله، سَمِعَ النبي صلى الله عليه وسلم يقول: "إذا دَخَلَ الرَّجُلُ بيتَه، فذكَرَ الله عز وجل عند دخوله وعندَ طَعامِهِ قال الشيطان: لا مَبيتَ لكم ولا عشاءً، وإذا دَخَلَ، فلم يذكرِ الله عندَ دخوله، قال الشيطان: أدركتُمُ المبيتَ، فإذا لم يذكرِ الله عندَ طعامِه قال: أدْرَكْتُمُ المَبيتَ والعَشاءَ."
ترجمہ: "جب کوئی شخص اپنے گھر میں داخل ہو اور داخل ہوتے اور کھانے کے وقت اللہ کا ذکر کرے تو شیطان کہتا ہے: تمہارے لیے نہ رات گزارنے کی جگہ ہے اور نہ کھانے کا حصہ اور اگر وہ گھر میں داخل ہوتے وقت اللہ کا ذکر نہ کرے تو شیطان کہتا ہے: تمہارے لیے رات گزارنے کی جگہ مل گئی اور اگر کھانے کے وقت بھی اللہ کا ذکر نہ کرے تو شیطان کہتا ہے: تمہارے لیے رہنے کی جگہ اور کھانے دونوں مل گئے۔"( سنن ابي داود، حديث نمبر: 3765)
مذکورہ روایت اپنی سند کے اعتبار سے "صحیح" ہے، صحیح مسلم اور دیگر بعض کتب احادیث میں بھی موجود ہے، اس کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ گھر میں داخل ہوتے وقت بسم اللہ پڑھ لینا یا اللہ کا ذکر کرنا بھی کافی ہے اور چونکہ اوپر ذکر کردہ دعا میں اللہ کا ذکر موجود ہے اور وہ قابلِ استدلال روایت سے ثابت بھی ہے، اس لیے وہ پڑھنا زیادہ بہتر ہے۔
اگر گھر میں داخل ہوتے وقت دعا پڑھنا بھول جائیں تو کیا کیا جائے؟
جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ اگر کوئی دعا پڑھنا بھول جائے تو کیا کرے، اوپر ذکر کردہ روایت میں یہ بات گزر چکی ہے کہ اگر کوئی دعا نہ پڑھے تو شیطان گھر میں داخل ہوجاتے ہیں، اور وہیں ٹھکانہ کرتے ہیں، تاہم اگر کسی کو بعد میں یاد آجائے تو اس وقت دعا پڑھنا کافی ہوگا یا نہیں؟ تو اس سلسلے میں بعض علماء نے یہ صراحت فرمائی ہے کہ یاد آنے پر دعا یا بسم اللہ پڑھ لے تو ان شاء اللہ یہ کافی ہوگا، جيسا کہ سنن ابی داود کے مشہور شارح علامہ ابن رسلان رملیؒ اسی حدیث کے تحت شرح كرتے ہوئے لکھتے ہیں"جب آدمی داخل ہوتے وقت دعا نہ پڑھ سکے اور بعد میں جب اسے یاد آئے، اس وقت اللہ کا نام لے لے، سو ظاہر یہ ہے کہ شیطان اس وقت گھر سے نکل جاتا ہے، بعد اس کے ان کو وہاں رہائش کا موقع مل چکا تھا". (شرح ابي داود لابن رسلان: 15/ 347)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن أبي داود: (رقم الحديث: 5096، 426/7، ط: دار الرسالة العالمية)
عن أبي مالك الأشعري، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إذا وَلَجَ الرجلُ بيتَهُ، فليقُلْ: اللهُمَّ إني أسألك خيرَ المَوْلَجِ وخيرَ المَخْرَج، بِاسْمِ الله ولجْنَا، وباسمِ الله خرجنا، وعلى الله ربنا توكلنا، ثم ليسلَّم على أهلِه".»
و فيه أيضا: (رقم الحديث: 3765، 589/5)
عن جابر بن عبد الله، سَمِعَ النبي صلى الله عليه وسلم يقول: "إذا دَخَلَ الرَّجُلُ بيتَه، فذكَرَ الله عز وجل عند دخوله وعندَ طَعامِهِ قال الشيطان: لا مَبيتَ لكم ولا عشاءً، وإذا دَخَلَ، فلم يذكرِ الله عندَ دخوله، قال الشيطان: أدركتُمُ المبيتَ، فإذا لم يذكرِ الله عندَ طعامِه قال: أدْرَكْتُمُ المَبيتَ والعَشاءَ"»
تحفة الأبرار: (کتاب الاطعمة، 104/3، ط: وزارة الأوقاف والشؤون الإسلامية بالكويت)
وفي حديث جابر: قال الشيطان: لا مبيت لكم ولا عشاء": المخاطب به: أعوانه أي: لا حظ ولا فرصة لكم الليلة من أهل هذا البيت، فإنهم قد أحرزوا عنكم طعامهم وأنفسهم۔ وتحقيق ذلك: أن انتهاض الشيطان فرصته من الإنسان إنما يكون حال الغفلة ونسيان الذكر، فإذا كان الرجل متيقظا ذاكرا لله في جملة حالاته لم يتمكن الشيطان من إغوائه وتسويله، وأيس عنه بالكلية.
شرح سنن أبي داود لابن رسلان: (347/15، ط: دار الفلاح)
«(وإذا دخل) الآدمي بيته (فلم يذكر) اسم (اللَّه عند دخوله) بيته (قال الشيطان) لبقية جماعته وإخوانه ورفقته (أدركتم) أي: حل لكم (المبيت) فلو قال لهم ذلك عند ترك اسم اللَّه، ثم إن الداخل تذكّر وذكر اسم اللَّه، فالظاهر أنهم يخرجون بعد أن طمعوا في المبيت.»
دليل الفالحين: (کتاب ادب الطعام، 218/5، ط: دار المعرفة للطباعة والنشر والتوزيع، بيروت، لبنان)
وإذا دخل فلم يذكر الله تعالى عند دخوله قال الشيطان: "أدركتم المبيت" إطلاقه يقتضي تمكنه من المبيت عند تركه الذكر حال الدخول، وإن أتى به بعد۔ ويحتمل أنه مقيد بما إذا لم يأت به بعد، وإلا فلا سبيل لهم إلا قياساً على التسمية أثناء الطعام ۔وقوله ﷺ "وإذا لم يذكر اسم الله عند طعامه": أي تركه كذلك عند الطعام أيضاً، (قال) أي الشيطان لأعوانه (أدركتم المبيت) أي مكان البيات، ويجوز أن يكون مصدراً اسمياً۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی