resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: دھوکہ کی بنیاد پر طلاق یا خلع کا حکم/ طلاق کے بعد سسرال اور شوہر کی طرف سے ملنے والے سونے کا حکم (32219-No)

سوال: السلام علیکم! معزز مفتیان کرام میں اپنا مسئلہ آپ کی خدمت میں گوش گزار کرتی ہوں، مجھے آپ کی رہنمائی درکار ہے، میں درس نظامی پڑھی ہوں اور پڑھائی کے دوران ہی اللہ کے حکم سے شرعی پردہ شروع کر دیا تھا، پڑھائی مکمل ہونے کے بعد والدہ کو میری شادی کی فکر ہوئی اور رشتے بہت آئے لیکن لوگوں کو شرعی پردہ کرانے پر اعتراض تھا، میں پردہ کرنا چھوڑ نہیں سکتی تھی والدہ کافی پریشان ہو گئی تھیں۔ میں ایک مدرسے میں پڑھاتی تھی وہاں ایک خاتون پڑھنے آتی تھی، انہوں نے والدہ سے رشتہ مانگا اپنے بھائی کے لیے اور وعدہ کیا کہ ہم شرعی پردہ کروائیں گے، ان کے بھائی کا مدرسے سے کوئی تعلق نہیں تھا، داڑھی بھی نہیں تھی، انہوں نے دعوی کیا کہ ہمارا بھائی بہت شریف ہے وہ شادی کے بعد لڑکی کے مزاج میں ڈھل جائے گا دین سے جڑ جائے گا اور بھائی کی عمر 32 سال بتائی، میرے والد صاحب کا انتقال ہو گیا تھا اور میرے بڑے بھائی ملازمت کے سلسلے میں ملک سے باہر تھے، والدہ بہت پریشان تھی، عمر کا بھی درست اندازہ نہ کر سکی جب نکاح ہوا اس وقت معلوم ہوا کہ شناختی کارڈ پر 47 سال عمر ہے اور میری عمر اس وقت 22 سال تھی جب شادی کر کے میں سرال گئی تو میری ساس 90 سال کے لگ بگ تھی اور ذہنی اور جسمانی دونوں طرح بیمار تھی جس کی خدمت کرنا میری ذمہ داری تھی شوہر کا مزاج بھی اتنا اچھا نہیں تھا نوکری سے آکر اپنے دوستوں میں نکل جاتے، ماں سے بھی مزاج نہیں ملتا تھا ہر وقت پیسہ گھر کے لیے لڑائی جھگڑا چلتا رہتا تھا مجھ سے بات چیت بند کر دیتے اور کھانا پینا باہر سے کرتے تھے، والدہ حیات تھی تو یہ سلسلہ تین چار دن تک محدود رہتا پھر معاملات درست ہو جاتے، حقوق زوجیت ادا کرنے کی بھی صلاحیت نہیں تھی، دواؤں کا استعمال کرتے تھے جس کی وجہ سے مجھے بہت تکلیف اٹھانی پڑتی تھی، ہماری اولاد بھی نہیں ہوئی، کیونکہ میں نے مدرسے سے تعلیم حاصل کی تھی ماں اور بھائیوں کی عزت کا خیال تھا کبھی اس اس رشتے سے نکلنے کا سوچا بھی نہیں تھا معاملات بھی درست نہیں تھے لوگوں کا قرضدار تھے لیکن لوٹانے کی فکر اور کوشش نہیں کرتے، اتنا عرصہ گزرنے کے بعد بھی دین سے کوئی لگاؤ نہیں ہے داڑھی بھی نہیں رکھی ماں کے انتقال کے بعد ذہنی طور سے بیمار ہو گئے مہینہ گزر جاتا بات نہیں کرتے، کھانا باہر سے کھاتے کپڑے باہر سے دھلواتے ہیں۔ عید اور تہوار کا بھی لحاظ نہیں کرتے، میں ذہنی پریشانی میں ہوں بہت عرصہ سے مسائل کا شکار ہوں لیکن اب ہمت جواب دے گئی ہے۔
اس رمضان دسویں روزے کو اچانک پھر بات چیت بند کر دی سحری افطاری باہر سے کرتے ہیں میں نے بہت کوشش کی راضی کرنے کی میرا اللہ گواہ ہے مجھے طلاق کی دھمکی دینے لگے امی بھائی کے ساتھ امی کے گھر آگئی تھی۔ وہ 15 دن بعد آئے اپنے رویے کی سب سے معافی تلافی کی اور لے کر چلے گئے تھے گھر لے جانے کے بعد بھی بہنوں سے بولا کہ یہ گھر خود اگئی ہے بہنوئی آئے جن سے میں نے ہمیشہ پردہ کیا کبھی سلام جواب کی بھی کوشش نہیں کی، ان کے سامنے بٹھا کر مجھے باتیں سنوائی اور ایک مرد مجھے الٹے سیدھے طعنے دیتا رہا لیکن میرا شوہر سر جھکا کر بیٹھا رہا اور ایک لفظ بھی نہیں بولا، اللہ گواہ ہے میں نے اپنی صفائی میں دو چار باتیں کی پھر میں اٹھ گئی۔
پھر اس کی دونوں بہنیں آگئیں اور بھائی سے کہا دوسری شادی کرو اور بچے پیدا کرو یہ تو بچے پیدا نہیں کر سکتی اور کرنے کے قابل نہیں اور بھی بہت فضول باتیں کی الامان والحفیظ لیکن مجھے دکھ اس بات کا ہے کہ میں نے اس بندے کے ساتھ اتنے سال گزارے، اس کی ماں کی خدمت کی سب کچھ جان کر بھی اس کی عزت کی ہے لیکن یہ میری عزت کے لیے دو لفظ بھی نہیں بول سکا میری حالت بہت خراب ہو گئی تھی، امی مجھے اپنے ساتھ کر لے کر آگئی سات مہینے سے میں امی کے گھر ہوں میں اب اس بندے کے ساتھ نہیں رہ سکتی وہ ذہنی مریض ہو گیا ہے اسے نہ اپنی عزت کا خیال ہے اور نہ میری عزت کا مزاج میں بہت لاابالی پن ہے دین دنیا کی سمجھ نہیں۔
میرے بھائی خلع کے کاغذات لے کر گئے تھے دستخط کروانے کے لیے لیکن وہ بندہ ضد پر ہے اڑھ گیا ہے کہ دستخط نہیں کروں گا تم لوگ کورٹ سے لے لو اس کے تین بہن اور بہنوئی بھی لڑنے لگے اور زیورات جو منہ دکھائی میں چوڑیاں دی تھی اس کا تقاضا کر رہے تھے اللہ گواہ ہے میں نے 12 سال ہر چیز اپنی انکھوں سے دیکھتے ہوئے بھی گزارا کی کوشش کی اور یہی سوچا کہ دنیا برداشت کروں اخرت بن جائے گی لیکن اپ خود بتائیں میں ایک نفسیاتی انسان کے ساتھ اپ کیسے گزارا کروں جو گھر میں بھی مجھے ذہنی ٹارچر کرتا ہے اور لوگوں کے سامنے بھی عزت نہیں کرتا۔ دارالعلوم کراچی سے 2011 میں فراغ ہوئی میرے پڑھائی بھی بس کتابوں تک محدود ہے صحبت کے انسان کے اوپر کچھ اثرات ہوتے ہیں میری بس اس پریشانی سے نکلنا چاہتی ہوں میں مزید اس انسان کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی ہوں بہت سوچ کر میں نے فیصلہ کیا ہے اور وہ ضد میں آکر طلاق نہیں دے رہا، اب میں کیا کروں؟ آپ رہنمائی فرمائیں
سوال نمبر (2) شادی میں سونے کا ایک عدد سیٹ دیا گیا تھا اور منہ دکھائی میں سونے کی چوڑیاں دی تھی کچھ عرصہ بعد گاڑی لی تھی تو سیٹ بیچ کر گاڑی کی قسطیں میں نے دی تھی اور سونا بیچ کر گھر کا کچھ سامان بھی لیا تھا، وہ تمام سونے کا تقاضا کر رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ میری اجازت کے بغیر سونا بیچا ہے اس پر پرچہ کٹواؤں گا۔ نیز شادی کے موقع پر اور منہ دکھائی میں ملنے والا سونا کس کی ملکیت ہے؟ علیحدگی صورت میں سے کیا حکم ہے حالانکہ سونا دیتے وقت امانت یا قرضے کی شرط نہیں لگائی گئی تھی؟
تنقیح: (1) محترمہ! آپ کے سوال میں چند باتیں قابل وضاحت ہیں، آپ اس بات کی وضاحت فرمائیں کہ شوہر میں صحبت کی صلاحیت نہ ہونے سے کیا مراد ہے؟ کیا شوہر نے ان بارہ سالوں میں کبھی بھی آپ سے صحبت نہیں کی ہے اور اگر یہی مراد ہے تو کیا یہ عیب معلوم ہونے کے بعد آپ نے زبان سے ان کے ساتھ زندگی گزارنے کی کبھی صراحت کی ہے؟
جوابِ تینقیح : 12 سال میں صحبت بھی ہوئی ہے لیکن ادویات کے بغیر سلسلہ ناممکن ہے شادی کے بعد ان کی عمر 47 اور میری 22 سال تھی اور اج ان کی عمر 59 اور میری 34 سال ہے اب وہ کوئی نہ کوئی بہانہ کر کے گھر سے باہر رہتے تھے کیونکہ ادویات کے نقصانات ہوتے ہیں اپنی ضرورت خود ہی پوری کر لیتے تھے۔
تنقیح (2): کیا شوہر اس دوران آپ کا نان نفقہ برداشت کرتا تھا اور مارنے پیٹنے کے حوالے سے اس کا کیا رویّہ تھا؟
جواب: جہاں تک نان نفقہ کی بات ہے گھر تھا اور تینوں وقت کا کھانا ملتا تھا اور ضرورت کا سامان بھی، لیکن تین سال سے نوکری نہیں ہے اور نوکری تلاش کرنے کی فکر بھی نہیں ہے۔ لوگوں کا قرض بھی ہے، اسے ادا کرنے کی فکر نہیں ہے کہ کیسے ادا ہوگا؟ سالوں سے بھائی کا گھر کرایہ پر لگا ہے اس کا کرایہ لیتے ہیں، بھائی کا انتقال ہو گیا ہے، اس کے بیوی بچے ہیں، لیکن کرایہ ان کے ہاتھ میں آتا ہے جو شرعا جائز نہیں ہے۔
مارتا پیٹتا نہیں تھا، لیکن مہینے بات چیت بند کر دیتا، اس دوران ضرورت کے کھانے پینے کا خیال نہیں کرتا۔

جواب: واضح رہے کہ طلاق کا اختیار شرعاً شوہر کو حاصل ہے، لیکن عورت چند اسباب کی وجہ سے شوہر کی مرضی کے بغیر بھی عدالت کے ذریعے مسلمان قاضی سے نکاح فسخ کرانے کا حق رکھتی ہے، وہ چند اسباب یہ ہیں: 1-شوہر نامرد ہو 2-نان و نفقہ نہ دیتا ہو 3-پاگل ہو 4-ایسا غائب ہو کہ اس کی زندگی اور موت کا کچھ پتہ نہ ہو 5-غائب غیر مفقود ہو
سوال میں ذکر کردہ صورت میں چونکہ ان اسباب میں سے کوئی بھی سبب نہیں پایا جا رہا، کیونکہ شوہر شرعی اصطلاح کے مطابق عنّین (نامرد) نہیں ہے، بلکہ صحبت کرنے پر قادر ہے اور نان و نفقہ بھی ادا کر رہا ہے۔ اس لیے مذکورہ صورت میں عورت عدالت کے ذریعے نکاح فسخ کرانے کی مجاز نہیں ہے۔
لہذا میاں بیوی کو چاہیے کہ سابقہ غلطیوں کی معافی تلافی کر کے اپنا گھر آباد کرنے کی کوشش کریں اور اس کے لیے دونوں خاندانوں کے بڑوں کو بھی اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے، لیکن اگر اس کے باوجود بھی شوہر کا رویّہ تبدیل نہ ہوتا ہو اور علاج و معالجہ کے ذریعے صحت کی درستگی کی بھی امید نہ ہو تو شوہر کو چاہیے کہ عورت کو طلاق دے کر آزاد کردے، عورت کو بلاوجہ لٹکائے رکھنا اور اس کی زندگی اجیرن کرنا ناجائز ہے اور ایسی صورت میں عورت کے لیے بھی جائز ہے کہ کسی بھی طریقے سے شوہر سے طلاق یا خلع حاصل کرے، اگرچہ اس کے لیے اسے کچھ مال وغیرہ بھی دینا پڑے۔
2) سوال میں ذکر کردہ صورت میں چونکہ سسرال اور لڑکے الوں کی طرف سے دیے گئے سونے میں مالک بنانے کی صراحت نہیں ہے، اس لیے اس میں لڑکے والوں کے عرف و رواج کا اعتبار ہوگا، لہذا اگر ان کے عرف میں یہ سونا بطور ملکیت دیا جاتا ہو تو عورت اس سونے کی مالک شمار ہوگی اور اس کا شوہر کی اجازت کے بغیر سونا بیچنا درست تھا، لیکن اگر ان کے عرف میں یہ سونا بطور ملکیت نہ دیا جاتا ہو، بلکہ محض استعمال کے لیے دیتے ہوں اور عورت کے مرنے یا طلاق واقع ہونے کی صورت میں ان کے ہاں واپس لینے کا رواج ہو تو یہ سونا عورت کی ملکیت شمار نہ ہوگا۔
ملکیت نہ ہونے والی صورت میں عورت کا اس سونے میں شوہر کی اجازت کے بغیر تصرّف کرنا جائز نہیں تھا، لہذا بلا اجازت تصرّف کرنے کی وجہ سے عورت کے ذمہّ اس قدر سونا یا اس کی موجودہ قیمت کی ادائیگی شرعاً لازم ہے، البتہ اگر عورت نے شوہر کی اجازت سے سونا بیچا ہو یا اس کی موجودگی میں بیچا ہو اور اس نے خاموشی اختیار کر کے اعتراض نہ کیا ہو تو یہ شوہر کی طرف سے اجازت شمار ہوگی اور عورت کے ذمہّ اس سونے کی ادائیگی لازم نہیں ہوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

بدائع الصنائع: (334/2، ط: دار الکتب العلمیة)
ومنها المعاشرة بالمعروف، وأنه مندوب إليه، ومستحب قال الله تعالى: {وعاشروهن بالمعروف} [النساء: 19] قيل هي المعاشرة بالفضل والإحسان قولا وفعلا وخلقا قال النبي: - صلى الله عليه وسلم - «خيركم خيركم لأهله، وأنا خيركم لأهلي» ، وقيل المعاشرة بالمعروف هي أن يعاملها بما لو فعل بك مثل ذلك لم تنكره بل تعرفه، وتقبله وترضى به، وكذلك من جانبها هي مندوبة إلى المعاشرة الجميلة مع زوجها بالإحسان باللسان، واللطف في الكلام، والقول المعروف الذي يطيب به نفس الزوج، وقيل في، قوله تعالى {ولهن مثل الذي عليهن بالمعروف} [البقرة: 228] أن الذي عليهن من حيث الفضل والإحسان هو أن يحسن إلى أزواجهن بالبر باللسان، والقول بالمعروف، والله عز وجل أعلم.
ويكره للزوج أن يعزل عن امرأته الحرة بغير رضاها؛ لأن الوطء عن إنزال سبب لحصول الولد، ولها في الولد حق، وبالعزل يفوت الولد، فكأنه سببا لفوات حقها، وإن كان العزل برضاها لا يكره؛ لأنها رضيت بفوات حقها، ولما روي عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنه قال: «اعزلوهن أو لا تعزلوهن إن الله تعالى إذا أراد خلق نسمة، فهو خالقها» إلا أن العزل حال عدم الرضا صار مخصوصا.

الھندیة: (327/1، ط: دار الفکر)
وإذا بعث الزوج إلى أهل زوجته أشياء عند زفافها منها ديباج فلما زفت إليه أراد أن يسترد من المرأة الديباج ليس له ذلك إذا بعث إليها على جهة التمليك، كذا في الفصول العمادية. جهز بنته وزوجها ثم زعم أن الذي دفعه إليها ماله وكان على وجه العارية عندها وقالت: هو ملكي جهزتني به أو قال الزوج ذلك بعد موتها فالقول قولهما دون الأب وحكى عن علي السغدي أن القول قول الأب وذكر مثله السرخسي وأخذ به بعض المشايخ وقال في الواقعات إن كان العرف ظاهرا بمثله في الجهاز كما في ديارنا فالقول قول الزوج، وإن كان مشتركا فالقول قول الأب، كذا في التبيين. قال الصدر الشهيد - رحمه الله تعالى - وهذا التفصيل هو المختار للفتوى، كذا في النهر الفائق.

شرح المجلّة للخالد الاتاسی: (تحت المادة: 67، 183/1، ط: حقانیہ)
سکوته عند بیع زوجته او قريبه عقاراً اقرار بانه لیس له علی ما افتی به مشایخ سمرقند خلافاً لمشایخ بخاری فلینظر المفتی ای لاختلاف التصحیح لکن المتون علی الاول فقد مشی علیه فی الکنز والملتقی آخر الکتاب فی مسائل شتی واحترز بالبیع عن الاجارة والرھن.

درر الحکّام شرح المجلّة لعلی حیدر: (تحت المادة: 67، 67/1، ط: الطارق)
کذلک اذا باع شخص مال زوجته او احد اقاربه من آخر بحضورھا علی انه له وسکتت فلیس للزوجة او للقریب بعد ذلک ان تدعی بملکیة ذلک المال لان سکوتھا علی بیع ذلک المال بحضورھا وعدم اعتراضھا اقرار منھا بعدم ملکيتھا ذلک المال.

شرح المجلّة للخالد الاتاسی: (تحت المادة: 899، 426/1، ط: حقانیہ)
المادة: 899: اذا غير الغاصب المال المغصوب بصورة يتبدل اسمه يكون ضامنا ويبقى المال المغصوب له مثلاً لو كان المال المغصوب حنطة وجعلها الغاصب بالطحن دقيقا يضمن مثل الحنطة ويكون الدقيق له كما ان من غصبا حنطة غيره وزرعها في ارضه يكون ضامنا للحنطة ويكون المحصول له.
وبين في هذه الماده ما اذا اغيره الغاصب على وجه ينقطع في حق المالك وذلك بان يتبدل اسم المغصوب كان يجعل الغاصب الحنطة المغصوبة دقيقاً ... و ذكر في التنویر والملتقى شرطا آخر لانقطاع حق المالك وهو ان يزول مع تبدل اسمه اعظم منافعه ای اكثر مقاصده.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Divorce