سوال:
میں ایک ایسے واقعے کے بارے میں دینی رہنمائی حاصل کرنا چاہتا ہوں جو میری اور میری بیوی کے درمیان پیش آیا۔ مجھے شدید غصے اور جذباتی اشتعال کا مسئلہ ہے۔ اکثر میں چند سیکنڈز میں انتہائی غصے میں آ جاتا ہوں اور ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میں سب رشتے ختم کرنے کے لیے تیار ہوں۔
گزشتہ روز (23.11.2025) میں اپنے تقریباً 11 ماہ کے بیٹے کو لے کر باہر چہل قدمی کے لیے گیا۔ موسم میں بارش (freezing rain) ہو رہی تھی۔ چلتے ہوئے راستے میں میرا بچہ بہت زور سے اور اچانک رونے لگا, میں نے ٹارچ کی روشنی دکھا کر اور اس سے بات کرکے اسے چپ کرانے کی کوشش کی لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔
وہ اس لیے بھی رو رہا تھا کہ وہ اسٹریولر سے باہر آنا چاہتا تھا، مگر میرے پاس کمبل نہیں تھا، اس لیے فوراً اسے باہر نکالنا ممکن نہ تھا, کچھ دیر بعد میں نے اسے اسٹریولر سے نکالا تو اس نے ڈکار لی اور رونا بند کر دیا۔
چند منٹ بعد جب میں نے دوبارہ اسے اسٹریولر میں بٹھانے کی کوشش کی تو وہ پھر زور سے رونے لگا, لوگ مڑ کر دیکھنے لگے، جس سے میری بے چینی اور بڑھ گئی۔ جرمنی میں مجھے ہمیشہ خوف رہتا ہے کہ کہیں Jugendamt (یوتھ ویلفیئر آفس) بچے کو مجھ سے نہ لے لے۔
مسلسل رونے کے دوران بچے نے الٹی بھی کی اور مسلسل رونے کی وجہ سے اسے ہچکیاں آنے لگیں، جس سے میری گھبراہٹ مزید بڑھ گئی کیونکہ میں ایسی صورتحال کو ٹھیک سے سنبھال نہیں پاتا۔
گھر پہنچ کر میں جذبات پر قابو نہ رکھ سکا اور اپنی اہلیہ سے غصے میں کہا کہ بچے کو رات میں تربوز نہیں کھلانا چاہیے۔ اس بات پر ہماری بحث شروع ہوگئی, بحث کے دوران میری اہلیہ نے مجھے "کتا کا بچہ" کہہ کر گالی دی۔ میں نے بھی جواب میں اسی طرح کا لفظ استعمال کیا اور پھر اس نے بھی دوبارہ جواب دیا۔
اسی جذباتی کیفیت میں اچانک میرے منہ سے یہ الفاظ نکل گئے: "میں تمہیں طلاق دیتا ہوں" (یہ میں نے صرف ایک بار کہا، پھر فوراً مجھے احساس ہوا کہ میں کیا کہہ بیٹھا ہوں)
طلاق کے الفاظ کہتے وقت میں شدید غصے اور ذہنی دباؤ کی حالت میں تھا, چند لمحوں کے لیے ذہن پر جیسے پردہ سا پڑ گیا تھا, سوچنے، سمجھنے اور الفاظ کے نتائج کو جاننے کی صلاحیت نہیں رہی تھی, یہ الفاظ نہ ارادے سے نکلے اور نہ طلاق دینے کی کوئی نیت تھی, الفاظ کہتے ہی میں فوراً ہوش میں آ گیا۔
مزید وضاحت
یہ میری پہلی بار طلاق کا جملہ تھا؛ اس سے پہلے کبھی طلاق نہیں دی, واقعے کے وقت میری بیوی حیض میں نہیں تھی, ہم نے چند گھنٹے پہلے ازدواجی تعلق قائم کیا تھا، لیکن بیوی نے ابھی غسل نہیں کیا تھا, مجھے پہلے سے شدید غصے اور کچھ لمحات کے لیے ذہنی بوجھ کے باعث blackouts ہونے کا مسئلہ ہے۔
اس واقعے کے بعد میں اور میری اہلیہ دونوں نے مثبت طریقے سے زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا ہے, ہم دونوں نے ایک دوسرے سے معافی مانگی ہے اور اکٹھے رہنے کا ارادہ کیا ہے۔
کیا ایسی حالت میں کہے گئے طلاق کے الفاظ شرعی طور پر معتبر ہوتے ہیں؟جب کہ اس وقت میرا ذہن شدید غصے اور دباؤ میں تھا، نیت نہیں تھی اور میں الفاظ کے معنی و نتائج سے بے خبر تھا۔
اگر طلاق واقع نہیں ہوئی تو کیا شریعت کے مطابق کوئی عملی قدم اٹھانے کی ضرورت ہے؟ ہم دونوں اب اپنی زندگی بہتر طریقے سے جاری رکھنا چاہتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ رہنے پر متفق ہیں۔
تنقیح:
محترم! آپ اس بات کی وضاحت فرمائیں کہ بوقت طلاق آپ اس قدر حواس باختہ اور مدہوش تھے کہ آپ کو اپنی عقل اور زبان پر قابو نہیں تھا اور بلا اختیار اور بلا قصد آپ کی زبان سے الفاظِ طلاق نکل گئے یا آپ جنون اور مدہوشی کی کیفیت میں نہیں تھے، بلکہ آپ کو اپنے حواس پر کسی قدر قابو تھا؟ اس وضاحت کے بعد ہی آپ کے سوال کا جواب دیا جاسکے گا۔
جواب تنقیح:
اس وقت میری کیفیت یہ تھی کہ میں شدید طور پر گھبراہٹ اور ذہنی انتشار میں مبتلا تھا، یہاں تک کہ مجھے اپنے حواس اور اپنی گفتگو پر صحیح طور پر قابو نہیں تھا۔ الفاظ میرے منہ سے بغیر کسی پرسکون ارادے اور بغیر سوچے سمجھے نکل گئے۔ میں پاگل نہیں تھا، لیکن ایسے ہوش و حواس میں بھی نہیں تھا کہ درست طور پر سوچ سکوں، ارادہ کرسکوں یا کوئی فیصلہ کرسکوں۔
یہ ایسا تھا جیسے میں کسی اور کیفیت یا کسی اور دنیا میں تھا، میری سوچنے اور کنٹرول کرنے کی صلاحیت متاثر ہو چکی تھی، طلاق کا لفظ زبان سے نکلتے ہی میں اچانک ہوش میں آیا، بالکل ایسے جیسے کوئی شخص ایک خوفناک خواب سے جاگ جائے۔
جواب: سوال میں ذکر کردہ صورت میں اگر بوقت طلاق شوہر کی کیفیت مجنون اور مدہوش کی طرح تھی کہ اسے اپنی عقل اور زبان پر قابو نہ رہا تھا اور طلاق کے الفاظ اور اس کے نتیجے سے بھی بے خبر تھا تو اس شخص کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ہے، البتہ اگر اس قدر مدہوشی کی کیفیت نہیں تھی، بلکہ صرف شدید غصے کی کیفیت تھی، لیکن الفاظ طلاق اور اس کے اثر سے باخبر تھا تو ایسے شخص کی بیوی پر طلاق واقع ہوچکی ہے، البتہ شوہر عدت (تین ماہواریاں) گزرنے سے پہلے رجوع کرسکتا ہے، رجوع کرنے کی صورت میں آئندہ شوہر کو صرف دو طلاقوں کا اختیار رہے گا۔
چونکہ طلاق کا معاملہ انتہائی سنگین ہے، لہذا شوہر پر لازم ہے کہ خوف آخرت کو سامنے رکھ کر خود کو جانچیں اور اس کے موافق عمل کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (244/3، ط: دار الفکر)
قلت: وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام: أحدها أن يحصل له مبادئ الغضب بحيث لا يتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه. والثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده، فهذا لا ريب أنه لا ينفذ شيء من أقواله. الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون فهذا محل النظر، والأدلة على عدم نفوذ أقواله. اه. ملخصا ..... فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش ونحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله وأفعاله الخارجة عن عادته، وكذا يقال فيمن اختل عقله لكبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته: فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقواله وإن كان يعلمها ويريدها لأن هذه المعرفة والإرادة غير معتبرة لعدم حصولها عن الإدراك صحيح كما لا تعتبر من الصبي العاقل
اعلاء السنن: (180/11، ط: ادارۃ القرآن)
والمراد الغضب الذي یحصل به الدھش وزوال العقل فإن قلیل الغضب لایخلو الطلاق عنہ إلانادراً، وقد قلنا بعدم وقوع الطلاق في مثل ھذا الغضب قال الزیلعی: قال فی التنقیح: وقد فسرہ أحمد أیضًا بالغضب۔ قال شیخنا : والصواب أنہ یعُمّ الإکراہ والغضب والجنون وکل أمرٍ ا نغلق علی صاحبہ عِلمُه وقصدہ، مأخوذ من غلق الباب.
امداد الاحکام: (560/2، ط: دارالعلوم کراچی)
امداد المفتین جامع: (228/9، ادارۃ المعارف)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی