resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: میراث تقسیم کرنے میں ٹال مٹول کرنا (32228-No)

سوال: جناب مفتی صاحب! میرے والد صاحب کا 1997 میں انتقال ہو گیا ہے، ترکہ میں ایک دوکان ہے، سب وارثین ترکہ کی تقسیم پر تیار تھے مگر میرے ایک چھوٹے بھائی نے والد صاحب کا ترکہ تقسیم کرنے میں بہت زیادہ تاخیر کی اور اب جب وہ ترکہ تقسیم کرنے پر تیار ہوگیا تو میری ایک چھوٹی بہن نے بہانہ بنا کر دستخط کرنے سے انکار کر دیا ہے، اب اس کے لیے کیا حکم ہے؟

جواب: واضح رہے کہ مرحوم والد کے انتقال کے بعد ان کی تمام چیزوں میں سب ورثاء کا حق ہے، لہذا پہلے چھوٹے بیٹے اور اب چھوٹی بیٹی کا میراث کی تقسیم کرنے میں ٹال مٹول کرنا جائز نہیں ہے، قرآن و حدیث میں اس پر سخت ممانعت آئی ہے، چنانچہ قرآن شریف کی آیت کا ترجمہ ہے: "اے ایمان والو ! آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق طریقے سے نہ کھاؤ۔" (سورة النساء، آیت نمبر:29)
اسی طرح حدیث مبارکہ میں ہے: حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص ( کسی کی ) بالشت بھر زمین بھی بطورِ ظلم لے گا، قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی زمین اس کے گلے میں طوق کے طور پر ڈالی جائے گی۔" (مشکوٰۃ المصابیح، باب الغصب و العاریة، 254/1)
لہذا جو وارث میراث تقسیم کرنے میں ٹال مٹول کررہا ہے، اس کو چاہیے کہ وہ والد کی میراث تمام ورثاء میں شرعی تناسب سے تقسیم کرنے دے، ورنہ آخرت میں سخت عذاب ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (النساء، الآية: 29)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا o

مشکوٰۃ المصابیح: (باب الغصب و العاریة، 254/1، ط: قدیمی)
عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أخذ شبراً من الأرض ظلماً؛ فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين».

و فیھا ایضاً: (باب الوصایا، 266/1، ط: قدیمی)
وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة».

بدائع الصنائع: (کتاب الغصب،فصل في حكم الغصب: 7/ 148، ط: دار الكتب العلمية)
"وأما حكم الغصب فله في الأصل حكمان: أحدهما: يرجع إلى الآخرة، والثاني: يرجع إلى الدنيا. أما الذي يرجع إلى الآخرة فهو الإثم واستحقاق المؤاخذة إذا فعله عن علم؛ لأنه معصية، وارتكاب المعصية على سبيل التعمد سبب لاستحقاق المؤاخذة، وقد روي عنه - عليه الصلاة والسلام - أنه قال: «من غصب شبرا من أرض طوقه الله تعالى من سبع أرضين يوم القيامة» ...(أما) الذي يرجع إلى حال قيامه فهو وجوب رد المغصوب على الغاصب۔"

واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Inheritance & Will Foster