سوال:
حاجی صاحب نے اپنی زندگی میں بوقت نکاح اپنی دونوں بیٹیوں کو 5/5 مرلے کا پلاٹ دیا تھا، اب حاجی صاحب فوت ہوگئے ہیں تو کیا ان کے ترکے میں سے بیٹیوں کو بھی حصہ ملے گا؟ کیونکہ بھائی کہتے ہیں کہ باپ نے تم لوگوں کی شادی پر پلاٹ دے دیا ہے، اب والد کے دیگر ترکہ میں تمھارا حصہ نہیں ہے۔
جواب: واضح رہے کہ والد نے شادی کے موقع پر جو جہیز (سامان، فرنیچر، مکان وغیرہ) بیٹیوں کو دیا ہے، وہ والد کی طرف سے اپنی بیٹیوں کے لیے تحفہ (Gift) ہے، اس کی وجہ سے بیٹیاں اپنے وراثتی حق سے محروم نہیں ہوں گی، والد کے انتقال کے بعد ان بیٹیوں کو بھی اپنے والد کی میراث میں سے حصہ ملے گا، لہذا بھائیوں کا والد کے دیے ہوئے تحفہ (جہیز) کے بدلے بہنوں کو والد کی میراث میں حصہ نہ دینا اور میراث سے محروم کردینا ناجائز ہے۔ بھائیوں پر لازم ہے کہ اپنی بہنوں کا شرعی حصہ دنیا میں ہی دے دیں ورنہ آخرت میں دینا پڑے گا اور آخرت میں دینا آسان نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مشکوٰۃ المصابیح: (ص: 254، باب الغصب و العاریة، ط: قدیمی)
عن سعید بن زید رضی اﷲ عنه قال قال رسول ﷲ صلی اللہ علیه وسلم من اخذ شبراً من الارض ظلماً فانه یطوقه یوم القیامة من سبع ارضین متفق علیه
الهندية: (327/1، ط: المطبعة الكبرى الأميرية ببولاق مصر)
" لو جهز ابنته وسلمه إليها ليس له في الاستحسان استرداد منها، وعليه الفتوى".
الفقه الإسلامي و أدلته للزحيلي: (4984/7، ط: دار الفكر)
ليس المرء حرا بالتصرف في ماله بعد وفاته حسبما يشاء كما هو مقرر في النظام الرأسمالي، وإنما هو مقيد بنظام الإرث الذي يعتبر في الإسلام من قواعد النظام الإلهي العام التي لا يجوز للأفراد الاتفاق على خلافها، فالإرث حق جبري.
شرح المجلة: (المقالة الثانیة، المادة: 97، 51/1، ط: رشیدیة)
" لايجوز لأحد أن يأخذ مال أحد بلا سبب شرعي."
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی