سوال:
مجھے ایک ضروری مسئلے میں رہنمائی چاہیے: میرے ماموں کے بیان کے مطابق 2018 میں میرے خالو نے میری خالہ کو تین طلاق دے دی تھیں، طلاق کے پیپرز انہوں نے میری خالہ کے سامنے حاضر کیے، اس کے بعد میری خالہ نے عدت بھی مکمل کی لیکن کچھ عرصے بعد میری خالہ دوبارہ اپنے شوہر کے پاس چلی گئیں اور انہوں نے بغیر کسی نئے نکاح کے انہیں واپس بھی قبول کر لیا، اس وجہ سے میرے ماموں نے میری خالہ سے ملنا جلنا بالکل بند کر دیا، پھر 2020 میں میرے خالو کا انتقال ہوگیا، اب میری خالہ بڑھاپے میں اکیلی ہیں اور مجھے یہ کہتی ہیں کہ میں ان کے پاس آ کر رہوں، ان کا سہارا بنوں اور ان کو اپنا سمجھ کر خدمت کروں۔ وہ کہتی ہیں کہ تم میرے بچوں جیسے ہو۔
اس ضمن میں میرے سوالات یہ ہیں:
1) اگر ان کا واپس جانا غلط تھا تو کیا ان کا یہ عمل ان کی شناخت یا قدر میں کمی لاتا ہے جس کی وجہ سے میں ان سے تعلق بند رکھوں؟
2) کیا میری خالہ کی مدد اور خدمت کرنا میری ذمہ داری میں ہے یا میں ان کے پچھلے عمل کی بنیاد پر ان سے تعلق ختم کر سکتا ہوں؟
مہربانی کر کے اس صورتحال میں شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرما دیں۔ جزاک اللہ خیرا
جواب: پوچھی گئی صورت میں اگر واقعتاً آپ کی خالہ شوہر کی طرف سے تین طلاقیں ملنے کے باوجود اس کے ساتھ زندگی گزارتی رہی ہیں تو وہ انتہائی برے فعل کے مرتکب ہوئی ہے، تاہم اب جبکہ آپ کی خالہ کو بڑھاپے میں خدمت اور سہارا کی ضرورت ہے تو آپ لوگوں کو چاہیے کہ ان کو اپنے کیے ہوئے پر سچے دل سے توبہ کرنے پر آمادہ کرتے ہوئے اس عمر میں ان کا سہارا بنیں، یقیناً آپ لوگوں کا یہ عمل عند اللہ اجر و ثواب کا ذریعہ بنے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الدلائل:
سنن ابن ماجة: (كتاب الزهد/ باب ذكر التوبة، رقم الحدیث: 4250، 640/5، ط: دار الجيل)
حدثنا أحمد بن سعيد الدارمي ، قال : حدثنا محمد بن عبد الله الرقاشي ، قال : حدثنا وهيب بن خالد ، قال : حدثنا معمر ، عن عبد الكريم ، عن أبي عبيدة بن عبد الله ، عن أبيه ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : "التائب من الذنب ، كمن لا ذنب له".
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی