سوال:
میری زوجہ نے گزشتہ 9 ماہ سے بغیر کسی قانونی یا شرعی اجازت کے اپنے ماں باپ کے گھر میں قیام کیا ہوا ہے، اس دوران ان کے والدین کی لالچی فطرت اور غیر شرعی مطالبات (مالی مطالبات) کی وجہ سے ہمیں مسلسل تنگ کیا جا رہا ہے، جس سے ہمارے ازدواجی حقوق متاثر ہو رہے ہیں اور گھریلو سکون میں خلل پیدا ہو رہا ہے۔ ہماری شادی 10 مئی کو ہوئی تھی اور دسمبر تک ہمیں مسلسل اس قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، میں آپ سے مؤدبانہ درخواست کرتا ہوں کہ شرعی نقطہ نظر سے رہنمائی فرمائیں کہ:
1) میرے ازدواجی حقوق کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
2) اس قسم کے غیر شرعی مطالبات اور والدین کے دباؤ کے خلاف میں کیا اقدامات کر سکتا ہوں؟
3) میری زوجہ کے بغیر اجازت قیام کے معاملے میں میں کس طرح اپنا حق حاصل کر سکتا ہوں؟
آپ کی رہنمائی میرے لیے بہت اہم ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ آپ ہمیں اس مسئلے کے حل کے لیے شرعی رہنمائی فراہم فرمائیں گے۔
تنقیح:
محترم! آپ کا سوال واضح نہیں ہے، آپ مندرجہ ذیل چند باتوں کی وضاحت فرمائیں:
1) سوال میں "غیر شرعی مطالبات" سے آپ کی کیا مراد ہے؟
2) "میری زوجہ کے بغیر اجازت قیام کے معاملے میں میں کس طرح اپنا حق حاصل کر سکتا ہوں؟" اس سوال کو مزید واضح کریں۔ اس وضاحت کے بعد ہی آپ کے سوال کا جواب دیا جاسکے گا۔
جواب تنقیح:
جناب مفتی صاحب! ہماری شادی ارینج میرج ہوئی ہے، 8 مارچ 2024 کو نکاح اور 10 مئی 2024 کو رخصت کرکے اپنے گھر لایا، میری بیوی کو اس کے والدین نے شادی کے دو ماہ بعد ہی اپنے گھر پر قید کردیا تھا، جب وہ ہر ہفتے اپنے والدین کے گھر ملنے جاتی تھی تو پورا دن گزار کر مغرب کے بعد میری نوکری سے واپسی پر میں اس کو لیکر آتا تھا، وہاں رات نہ رکنے کا یہ اس کا اپنا فیصلہ تھا۔
جب جولائی 2024 میں شادی کو دو ماہ ہوئے تھے، اس کو معمول کے مطابق لینے گیا تو اس کی والدہ کا حد سے زیادہ اصرار ہوا کہ آج رات رک جاؤ، میری بیوی اپنی والدہ کو منع کرتی رہی لیکن شدید اصرار اور منتیں کرنے پر اس نے وہاں رکنے کی حامی بھرلی، مجھ سے پوچھا میں نے کہا خیر ہے اور کل آکر لے جانے کا بول کر نارملی اپنے گھر آگیا، لیکن پھر اگلی صبح ہی میری بیوی کے گھر والے اس کے بنا ہمارے گھر آگئے اور انتہائی سخت اور گندے قسم کی باتیں گندی غلیظ ترین گالیاں دینے لگے، 20 لاکھ روپے، ایک خیر آباد کا مکان اور سونے کا مطالبہ کر نے لگے اور میری بیوی کو گھر میں بند کر دیا، کمرے میں تالا لگا کر اس کے والدین نے مجھ سے گھر آکر پیسوں اور دیگر اشیاء کا تقاضا کیا۔
انتہائی لالچی اور غلیظ قسم کے لالچی لوگ ہیں اور مجھے ظاہر کیا کہ میری بیوی تمہاری ہمارے ساتھ ملی ہوئی ہے کسی طرح دو تین دن گزرے ہیں تو 18 جولائی 2024 کو میری بیوی نے کال کرکے مجھے سچ سب بتایا، میری بیوی نے کہا کہ مجھے آکر لے جاؤ، انہوں نے مجھے کمرے میں بند کیا اور یہ ہمیں ملنے نہیں دیں گے تو میں کسی طرح سے شدید مزاحمت اور زد و کوب کرکے بیوی کو لے آٰیا، پھر بیس جولائی سے دسمبر 2024 مسلسل میرے ساس سسر نے ہمارے بارے میں گندی باتیں کی اور گالیاں دیں کہ انسانیت شرما جائے، اپنی ہی بیٹی کی عزت پر کیچڑ اچھالا، مسلسل ہمارےگلی میں روزانہ گالیاں و گندی باتیں کریں، مسلسل محلے میں شور شرابہ کرکے ہمارا جینا حرام کر دیا، آخر چھ دسمبر 2024 کو جمعہ کے روز جبکہ یہ لوگ جرگہ لے کے آنے لگے تھے تو انہوں نے مجھے فون کر کے کہا کہ ہم لوگ آنے لگے ہیں، میں تو نماز پڑھنے گیا تھا ، میری بیوی سے گندی باتیں کریں، میں نماز سے واپس آیا تو میری بیوی نے روتے ہوئے باوضو ہوکر قران مجید رکھا اور رو کر مجھے کہا کہ میرے ساتھ میرے باپ نے شادی سے پہلے کئی دفعہ بدفعلی کری، جس کا علم میری ماں کو ہے اور شادی کے بعد انہوں نے مجھے رات روکا تھا، اس نے وہ بات بتائی ہے، اس رات جو میرے ساتھ گندےکام کرنے کی کوشش کے لیے میرے مزاحمت اور انکار پر انہوں نے مجھے مارا اور پھر کمرے میں بند کر دیا اور آپ سے پیسے مانگے، لہذا میں ان کے ساتھ نہیں جاؤں گی تو بات سن کر میرے پاؤں تلے زمین نکل گئی۔ خیر اس شام کو اس کے گھر والوں نے زبردستی لے جانے کی کوشش کری لیکن وہ میرے ساتھ رہی، 19 دسمبر 2024 کو میری بیوی کی نانی عمرہ عطا کر کے واپس کراچی آئی تو میری بیوی کے ماموں، خالہ سب میری بیوی ملنے آئے، پہلی دفعہ ہمارے گھر آئے تھے پھر میری بیوی 19 دسمبر کو ایک دن کا بول کر مجھ سے اجازت لے کر ہنسی خوشی کورنگی میں نانی کے گھر گئی اور وہاں انہوں نے سب سچائی جانتے بوجھتے بھی اس کو والدین کے حوالے کردیا، اب دسمبر 19 سے آج 10 ماہ ہو گئے، جناب کوئی راستہ/طریقہ میں نے نہیں چھوڑا، سب کچھ کیا اس کے لالچی ماں باپ کو پیسے دیئے، ہمیں نہ برباد کرو لیکن انہوں نے میری بیوی کو اپنے جیسے کردیا، اس کے ساتھ مسلسل 10 ماہ سے انہوں نے پتہ نہیں کیا کیا، وہ بھی عجیب سی ہو گئی مجھ سے کوئی رابطہ نہیں کر رہی، میرے کوئی حقوق ادا نہیں ہو پارہے، میرا ذہن پھٹ جائے گا۔
جناب میرا آپ سے سوال ہے کہ میں حافظ قرآن ہوں اور ایک لفظ بھی یہاں جھوٹ نہیں کہا اور اس کا دنیا اور آخرت میں ذمہ دار ہوں تو کیا اس صورت میں میں دوسری شادی کر سکتا ہوں؟ میں نے تمام حالات و واقعات دیکھ کر ان کو راضی کرنے کی کوشش کری اپنا گھر نہ برباد ہو لیکن وہ کسی بات کےلیے تیار نہیں ہے شدید دباؤ میں ہوں۔
جواب: سوال میں ذکر کردہ صورت میں لڑکی کے والدین کا رویّہ انتہائی غیر ذمّہ دارانہ، بد اخلاقی اور ظلم و زیادتی پر مبنی ہے اور شوہر کو طلاق پر ابھارنے کے مترادف ہے۔ چونکہ لڑکی کے والدین کے رویّے کی وجہ سے شوہر کے حقوق ضائع ہو رہے ہیں اور پوری کوشش کے باجود نبھاؤ ممکن نہیں ہو رہا، لہذا اگر شوہر چاہے تو طلاق دے دے یا مہر کے عوض خلع دے دے۔
نیز پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر دوسری شادی کرنا شرعاً جائز عمل ہے، بشرطیکہ شوہر دونوں بیویوں میں عدل و انصاف قائم رکھ سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھندية: (488/1، ط: دار الفکر)
إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال كذا في الهداية.
إن كان النشوز من قبل الزوج فلا يحل له أخذ شيء من العوض على الخلع وهذا حكم الديانة فإن أخذ جاز ذلك في الحكم ولزم حتى لا تملك استرداده كذا في البدائع.
وإن كان النشوز من قبلها كرهنا له أن يأخذ أكثر مما أعطاها من المهر ولكن مع هذا يجوز أخذ الزيادة في القضاء كذا في غاية البيان.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی