سوال:
مفتی صاحب! میاں بیوی میں جھگڑا چل رہا تھا، جھگڑے کے دوران بیوی نے کہا کہ مجھے طلاق دیدو، شوہر نے چھ مرتبہ صرف یہ لفظ کہا: طلاق طلاق، طلاق، طلاق، طلاق، طلاق اور تین کی نیت نہیں تھی، بلکہ صرف بیوی کو طلاق دینے کا یقین دلانے کے لیے کئی مرتبہ کہا تو دیانتاً کتنی طلاقیں واقع ہوئی ہیں؟
جواب: سوال میں ذکر کردہ صورت میں بیوی کے طلاق کے مطالبہ پر شوہر کا چھ مرتبہ لفظ "طلاق" کہنے سے اس کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں اور اپنے شوہر پر حرمتِ مغلّظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ہے، اب نہ رجوع ہوسکتا ہے اور نہ ہی دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے۔
ہاں! اگر عورت عدّت گزار کر کسی اور مرد سے نکاح کرلے اور اس سے ازدواجی تعلّقات بھی قائم کرلے، پھر وہ اسے اپنی مرضی سے طلاق دے دے یا اس کا انتقال ہوجائے تو ایسی صورت میں وہ عورت عدّت گزار کر دوبارہ سابقہ شوہر سے نکاح کرنا چاہے تو کرسکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (248/3، ط: دار الفکر)
ولا يلزم كون الإضافة صريحة في كلامه؛ لما في البحر لو قال: طالق فقيل له من عنيت؟ فقال امرأتي طلقت امرأته. اه. .... وسيذكر قريبا أن من الألفاظ المستعملة: الطلاق يلزمني، والحرام يلزمني، وعلي الطلاق، وعلي الحرام، فيقع بلا نية للعرف إلخ. فأوقعوا به الطلاق مع أنه ليس فيه إضافة الطلاق إليها صريحا، فهذا مؤيد لما في القنية، وظاهره أنه لا يصدق في أنه لم يرد امرأته للعرف، والله أعلم
الھندية: (356/1، ط: دار الفکر)
ولو قالت طلقني ثلاثا فقال أنت طالق أو فأنت طالق فهي واحدة ولو قال قد طلقتك فهي ثلاث كذا في السراج الوهاج ولو قالت أنا طالق فقال نعم طلقت ولو قاله في جواب طلقني لا تطلق وإن نوى
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی