سوال:
ہم بھائی سب ایک ہی گھر میں رہتے ہیں۔ ان شاء اللہ میرے سب سے بڑے بھائی کی شادی ہونے والی ہے۔ میں نے پوری کوشش کی کہ شادی میں مرد و عورت کے لیے الگ انتظام ہو، لیکن گھر والے اس پر راضی نہیں ہیں۔ تقریب میں مخلوط ماحول ہوگا، لیکن وہاں موسیقی یا ڈانس وغیرہ نہیں ہوگا۔ تقریب کے شروع میں تھوڑا سا ڈھول شاید بجایا جائے۔
میرا سوال یہ ہے گھر والے ہال میں پارٹیشن پر مان گئے ہیں لیکن اسٹیج پر نہیں ہوگی۔
1) اگر ہال میں پارٹیشن کرا دیا جائے لیکن اسٹیج مشترکہ ہو تو میں اسٹیج سے بچ کر ایک طرف الگ بیٹھ جاؤں گا اور ہمارے ساتھ کوئی لڑکی بھی نہیں بیٹھے گی، صرف اسٹیج پر لڑکیاں بعد میں آ سکتی ہیں۔ کیا یہ صورت کافی ہوگی؟ جہاں تک لوگوں میں گناہ میں شامل ہونے کی بات ہے تو میرے سب قریبی رشتہ دار جانتے ہیں کہ میں اس عمل کو ناپسند کرتا ہوں اور میں حوصلہ افزائی نہیں کرتا، میں صرف مجبوری کی وجہ سے شریک ہو رہا ہوں۔
2) اگر میں صرف کھانے تک وہاں بیٹھوں اور جیسے ہی رسومات شروع ہوں، فوراً نکل آؤں تو کیا یہ صورت بہتر ہوگی؟ یا مجھے کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہیے؟ براہ کرم وضاحت فرمائیں۔ آخر میں یہ بھی عرض ہے کہ میری کم عمری کی وجہ سے میں پورے خاندان کے خلاف نہیں جا سکتا، اس لیے مجھے کسی نہ کسی طرح شامل ہونا پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے۔ جزاکم اللہ خیراً
جواب: واضح رہے کہ نکاح ایک پاکیزہ اور بابرکت عمل ہے، شریعت مطہّرہ نے اس بابرکت عمل کو حیاء اور پاکیزگی سے کرنے کا حکم دیا ہے۔
ایسے مبارک موقع پر غیر محرم مرد و عورت کا اختلاط، میوزک، بے پردگی، یا غیر شرعی رسومات (جیسے اسٹیج پر مشترکہ بیٹھک، ڈھول وغیرہ) پائی جائیں تو یہ سب امور ناجائز ہیں اور ان سے اجتناب لازم ہے۔
البتہ صورت مذکورہ میں اگر آپ کے لیے تقریب میں شرکت سے مکمل اجتناب ممکن نہ ہو اور آپ نے اصلاح کی کوشش بھی کی ہو تو ایسی صورت میں درج ذیل شرائط کے ساتھ شرکت کی گنجائش ہے:
1) مخلوط ماحول سے مکمل اجتناب کرتے ہوئے علیحدہ ہوکر بیٹھیں۔
2) مخلوط اسٹیج یا کسی بھی غیر شرعی رسم و رواج میں شرکت نہ کریں۔
3) دل سے ان غیر شرعی امور کو برا سمجھیں۔
4) عالم یا مقتدا نہ ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
السّنن الکبری للبیھقی: (باب ماجاء فی ذمّ الملاھی والمعارف والمزامیر ونحوھا، 374/10، ط: دار الکتب العلمیة)
عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " إن الله تبارك وتعالى حرم عليكم الخمر والميسر والكوبة "وهو الطبل وقال:" كل مسكر حرام."
مرقاۃ المفاتیح: (كتاب الآداب، باب الأمر بالمعروف، 3208/8، ط: دار الفكر)
"عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " «من رأى منكم منكرا فليغيره بيده، فإن لم يستطع فبلسانه، فإن لم يستطع فبقلبه، وذلك أضعف الإيمان».
(وذلك) أي: الإنكار بالقلب وهو الكراهية (أضعف الإيمان) أي: شعبه أو خصال أهله، والمعنى أنه أقلها ثمرة، فمن غير المراتب مع القدرة كان عاصيا، ومن تركها بلا قدرة أو يرى المفسدة أكثر ويكرر منكرا لقلبه، فهو من المؤمنين. وقيل: معناه وذلك أضعف زمن الإيمان، إذ لو كان إيمان أهل زمانه قويا لقدر على الإنكار القولي أو الفعلي، ولما احتاج إلى الاقتصار على الإنكار القلبي، أو ذلك الشخص المنكر بالقلب فقط أضعف أهل الإيمان، فإنه لو كان قويا صلبا في الدين لما اكتفى به، ويؤيده الحديث المشهور: " «أفضل الجهاد كلمة حق عند سلطان جائر» " وقد قال تعالى: {ولا يخافون لومة لائم} [المائدة: 54] هذا وقد قال بعض علمائنا: الأمر الأول للأمراء، والثاني للعلماء، والثالث لعامة المؤمنين. وقيل: المعنى إنكار المعصية بالقلب أضعف مراتب الإيمان، لأنه إذا رأى منكرا معلوما من الدين بالضرورة فلم ينكره ولم يكرهه، ورضي به واستحسنه كان كافرا، ولعل الإطلاق الدال على العموم لإفادة التهديد والوعيد الشديد."
الهندية: (کتاب الحظر والاباحة، 343/5، ط: دار الفکر)
من دعي إلى وليمة فوجد ثمة لعبا أو غناء فلا بأس أن يقعد ويأكل، فإن قدر على المنع يمنعهم، وإن لم يقدر يصبر وهذا إذا لم يكن مقتدى به أما إذا كان، ولم يقدر على منعهم، فإنه يخرج، ولا يقعد، ولو كان ذلك على المائدة لاينبغي أن يقعد، وإن لم يكن مقتدى به وهذا كله بعد الحضور، وأما إذا علم قبل الحضور فلا يحضر؛ لأنه لا يلزمه حق الدعوة بخلاف ما إذا هجم عليه؛ لأنه قد لزمه كذا في السراج الوهاج اھ.
واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی