سوال:
میں ایک ایسے شخص کو جانتا ہوں جو ایک غیر مسلم عورت کے ساتھ تعلق میں ہے۔ وہ عورت حاملہ ہوگئی ہے، اب یہ دونوں نکاح کرنا چاہتے ہیں اور وہ عورت (اسلام قبول کر کے) مسلمان ہونا چاہتی ہے، اب ایسی صورت میں ان کو کیا کرنا چاہیے اور اس حمل (پریگنینسی) کا کیا حکم ہوگا؟
جواب: واضح رہے کہ غیر مسلم عورت کے مسلمان ہونے کے بعد اس سے نکاح کرنا بلا شبہ جائز ہے۔ نیز مزنیہ (یعنی زنا کرنے والی عورت) سے زانی کا نکاح کرنا جائز ہے اور بعد از نکاح حالت حمل میں صحبت بھی درست ہے، البتہ جہاں تک حمل کے نسب کا تعلق ہے تو اس میں تفصیل یہ ہے کہ اگر بچے کی ولادت نکاح کرنے کے چھ ماہ بعد ہو جائے تو بچہ اس شوہر سے ثابت النسب ہوگا اور اس کے مرنے کی صورت میں اس کا وارث بھی بنے گا، لیکن اگر بچے کی ولادت نکاح کرنے کے بعد چھ ماہ سے پہلے پہلے ہو جائے تو بچہ اس شوہر سے ثابت النسب نہ ہوگا اور اس کے مرنے کی صورت میں اس کا وارث بھی نہیں بنے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (45/3 ،ط: دار الفکر)
(و) حرم نكاح (الوثنية) بالإجماع (وصح نكاح كتابية) ، وإن كره تنزيها (مؤمنة بنبي) مرسل (مقرة بكتاب) منزل، وإن اعتقدوا المسيح إلها، وكذا حل ذبيحتهم على المذهب بحر.
الدر المختار مع رد المحتار: (49/3 ،ط: دار الفکر)
لو نكحها الزاني حل له وطؤها اتفاقا والولد له ولزمه النفقة
(قوله: والولد له) أي إن جاءت بعد النكاح لستة أشهر مختارات النوازل، فلو لأقل من ستة أشهر من وقت النكاح، لا يثبت النسب، ولا يرث منه إلا أن يقول هذا الولد مني، ولا يقول من الزنى خانية. والظاهر أن هذا من حيث القضاء، أما من حيث الديانة فلا يجوز له أن يدعيه؛ لأن الشرع قطع نسبه منه، فلا يحل له استلحاقه به
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی