سوال:
رخصتی سے پہلے اور خلوتِ صحیحہ کے بعد دی جانے والی ایک طلاق سے نکاح ختم ہو جاتا ہے۔ خلوتِ صحیحہ میں دخول نہیں ہوا صرف رومانس ہوا ہے تو کیا اب دوبارہ رجوع ہو سکتا ہے یا تجدیدِ نکاح ہی ہوگا؟
جواب: واضح رہے کہ میاں بیوی کے درمیان ایسی تنہائی جس میں جماع کے لیے کوئی حسّی، شرعی یا طبعی عذر مانع نہ ہو، "خلوت صحیحہ" کہلاتی ہے اور ایسی تنہائی جماع (ہمبستری) کے حکم میں ہے، چاہے ہمبستری ہوئی ہو یا نہیں ہوئی ہو۔
لہذا اگر کسی نے ایسی تنہائی کے بعد بیوی کو ایک یا دو طلاق رجعی دی ہوں تو اس کو عدت کے اندر رجوع کرنے کا اختیار ہوگا، جبکہ طلاق بائن دینے کی صورت میں عدت کے اندر یا عدت کے بعد طرفین کی رضامندی، گواہوں کی موجودگی اور نئے مہر کے ساتھ تجدیدِ نکاح کرنا ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (114/3، ط: دار الفکر)
" (والخلوة) مبتدأ خبره قوله الآتي: كالوطء ( بلا مانع حسي) كمرض لأحدهما يمنع الوطء (وطبعي) كوجود ثالث عاقل، ذكره ابن الكمال وجعله في الأسرار من الحسي، وعليه فليس للطبعي مثال مستقل (وشرعي) كإحرام لفرض أو نفل".
الفتاوي الهندية: (304/1، ط: دار الفکر)
"وَالْخَلْوَةُ الصَّحِيحَةُ أَنْ يَجْتَمِعَا فِي مَكَان لَيْسَ هُنَاكَ مَانِعٌ يَمْنَعُهُ مِنْ الْوَطْءِ حِسًّا أَوْ شَرْعًا أَوْ طَبْعًا، كَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ".
الهداية: (254/2، ط: دار إحياء التراث العربي)
وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض " لقوله تعالى: {فأمسكوهن بمعروف} [البقرة: ٢٣١] من غير فصل ولا بد من قيام العدة لأن الرجعة استدامة الملك ألا ترى أنه سمى إمساكا وهو الإبقاء وإنما يتحقق الاستدامة في العدة لأنه لا ملك بعد انقضائها " والرجعة أن يقول راجعتك أو راجعت امرأتي " وهذا صريح في الرجعة ولا خلاف فيه بين الأئمة.
رد المحتار: (باب الرجعة، مطلب فی العقد علی المبانة، 409/3، ط: دار الفکر)
"وینکح مبانته بما دون الثلاث في العدۃ وبعدہا بالإجماع ومنع غیرہ فیہا لاشتباہ النسب".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی