resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: نکاح کے بعد ایک گواہ کا اپنے آپ کو ملحد (Atheist) قرار دینا (32339-No)

سوال: میں آپ کی خدمت میں ایک اہم مسئلہ کے بارے میں رہنمائی اور شرعی فتویٰ کی درخواست کے لیے لکھ رہا ہوں، یہ مسئلہ پاکستان میں اسلامی قانون کے مطابق ہونے والے ایک نکاح کی درستگی (validity) سے متعلق ہے۔نکاح پاکستان میں شرعی اصولوں کے مطابق منعقد ہوا اور سرکاری نکاح نامہ پر باقاعدہ رجسٹر بھی کیا گیا، دلہا اور دلہن دونوں نکاح کے وقت مسلمان تھے اور نکاح ایک نکاح خواں (امام/قاضی) نے پڑھایا۔
گواہوں میں سے دو گواہ دلہا کی طرف سے تھے یعنی دلہا کے حقیقی بھائی اور دو گواہ دلہن کی طرف سے تھے یعنی دلہن کے حقیقی بھائی۔ دلہن نے ایک وکیل (نمائندہ) مقرر کیا تھا جو نکاح کے وقت موجود تھا اور اس کے انگوٹھے کا نشان (thumb impression) بھی نکاح نامہ پر درج ہے۔
تاہم کچھ عرصے بعد (نکاح کے بعد) دلہا کے ایک بھائی (جو نکاح کے گواہوں میں شامل تھا) نے اعلان کیا کہ وہ اسلام چھوڑ کر ملحد (Atheist) بن چکا ہے۔اس نے مزید بتایا کہ وہ نکاح کے وقت بھی پہلے سے ہی اسلام پر ایمان نہیں رکھتا تھا،لیکن اس وقت اس نے یہ بات ظاہر نہیں کی تھی۔دلہا اور باقی تمام خاندان اس بات سے نکاح کے وقت بے خبر تھے اور اسے مسلمان ہی سمجھتے تھے۔
میرا سوال یہ ہے:
شریعتِ اسلامیہ کی رو سے اس نکاح کی کیا حیثیت ہے؟کیا نکاح درست (Valid) ہے؟ کیونکہ باقی گواہ مسلمان تھے اورنکاح کے وقت دلہا، دلہن، قاضی، اور سب لوگ یہی یقین رکھتے تھے کہ تمام گواہ مسلمان ہیںیا پھر چونکہ ایک گواہ دراصل مسلمان نہیں تھا، اس وجہ سے نکاح کو دوبارہ پڑھانا (تجدید نکاح) ضروری ہے؟
مزید یہ کہ نکاح نامے پر پانچ افراد کے دستخط موجود ہیں:
دلہن کے والد (بطور وکیل)، دلہن نے خود ایجاب و قبول کیا، دلہن کے دو بھائی جنہوں نے "دلہن کے وکیل کے تقرر" والے حصے میں دستخط کیے،اور دلہا کے دو بھائی جنہوں نے "شادی کے گواہان" کے خانے میں دستخط کیے،جن میں سے ایک بعد میں ملحد ثابت ہوا۔
براہِ کرم قرآن، سنت اور فقہی اصولوں کی روشنی میں اس مسئلے پر ایک تحریری شرعی فتویٰ / رائے جاری فرمائیں تاکہ معاملہ درست اسلامی طریقے سے حل کیا جا سکے۔

جواب: سوال میں ذکر کردہ صورت میں چونکہ بوقت نکاح ایک غیر مسلم گواہ کے علاوہ شرعی گواہوں (دو عاقل بالغ مسلمان) کی تعداد پوری تھی، اس لیے شرعاً یہ نکاح منعقد ہوچکا ہے، لہذا دوبارہ تجدیدِ نکاح کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر ملکی قانون کی وجہ سے نیا نکاح نامہ بنانا پڑے تو شرعاً اس سے سابقہ نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

بدائع الصنائع: (253/2، ط: دار الکتب العلمیة)
"وأما صفات الشاهد الذي ينعقد به النكاح ... ومنها الإسلام في نكاح المسلم المسلمة فلاينعقد نكاح المسلم المسلمة بشهادة الكفار؛ لأن الكافر ليس من أهل الولاية على المسلم، قال الله تعالى: {ولن يجعل الله للكافرين على المؤمنين سبيلًا} [النساء: 141] وكذا لايملك الكافر قبول نكاح المسلم ولو قضى قاض بشهادته على المسلم ينقض قضاؤه."

الهداية: (کتاب النکاح، 185/1، ط: دار إحیاء التراث العربي)
قال: " ولا ينعقد نكاح المسلمين إلا بحضور شاهدين حرين عاقلين بالغين مسلمين رجلين أو رجل وامرأتين عدولا كانوا أو غير عدول أو محدودين في القذف ... ولا بد من اعتبار الإسلام في أنكحة المسلمين لأنه لا شهادة للكافر على المسلم.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Nikah