سوال:
میری شادی 2021 میں ہوئی تھی۔ شادی کے کچھ عرصے بعد میرے گھر میں میری اہلیہ اور میری فیملی (خاص طور پر والدہ) کے درمیان شدید جھگڑے شروع ہوگئے۔ میری اہلیہ کو کئی مرتبہ میری والدہ کی طرف سے گھر سے نکال دیا گیا، اگر میں اپنی بیوی کا ساتھ دیتا تو مجھے بھی گھر سے نکال دینے کی دھمکیاں دی جاتی تھیں۔
انہی گھریلو حالات، دباؤ اور ذہنی پریشانی کے عالم میں میں نے خاندانی دباؤ میں آکر اپنی بیوی کو طلاق دے دی، اُس وقت میرا ذہن بالکل پرسکون نہیں تھا اور نہ ہی میری پکی نیت طلاق دینے کی تھی، بلکہ میں ایک مجبوری اور ذہنی دباؤ میں یہ قدم اٹھا بیٹھا۔
اب میں دوبارہ اپنی اہلیہ سے شادی کرنا چاہتا ہوں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ میں نے اُس وقت تین طلاقیں دے دی تھیں، اُس وقت میری نیت طلاق دینے کی نہیں تھی بلکہ خاندانی دباؤ، ذہنی دباؤ اور ’’کسی ایک کو چننے‘‘ والی کیفیت میں یہ الفاظ زبان سے نکل گئے تھے۔
درج ذیل سوالات کے جوابات درکار ہیں:
1) کیا ایسی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہوتی ہے جب انسان شدید ذہنی دباؤ اور مجبوری میں ہو اور نیت واضح طور پر طلاق کی نہ ہو؟
2) اگر تین طلاقیں واقع ہو چکی ہوں تو کیا حلالہ لازم ہے؟
3) اگر حلالہ لازم ہے تو کیا پہلے سے منصوبہ بندی کے تحت حلالہ (یعنی عارضی نکاح کے ارادے سے) شرعاً جائز ہے یا حرام؟
4) اگر طلاق واقع نہیں ہوئی یا ناقص ہوئی تو کیا میں اپنی اہلیہ سے نیا نکاح کر سکتا ہوں؟
5) براہِ کرم مجھے رہنمائی فرمائیں کہ میری موجودہ حالت میں شرعی لحاظ سے درست راستہ کیا ہے؟
میں دل سے توبہ کرنا چاہتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ آئندہ زندگی شرعی طریقے سے گزاروں۔ مہربانی فرما کر میری رہنمائی فرمائیں تاکہ میں گناہ سے بچتے ہوئے درست قدم اٹھا سکوں، اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
جواب: (1) اگر انسان پر مکمل جنون یا بے ہوشی کی کیفیت طاری نہ ہو بلکہ وہ بات سمجھنے اور بولنے کی صلاحیت رکھتا ہو تو مجبوری اور ذہنی دباو کی حالت میں دی ہوئی طلاق بھی واقع ہوجاتی ہے۔
(2) تین طلاقیں ہوجانے کے بعد مذکورہ عورت اپنے شوہر پر حرمتِ مغلّظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ہے، اب نہ رجوع ہوسکتا ہے اور نہ ہی دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے۔
ہاں! اگر عورت عدّت گزار کر کسی اور مرد سے نکاح کرلے اور اس سے ازدواجی تعلّقات بھی قائم کرلے، پھر وہ اسے اپنی مرضی سے طلاق دے دے یا اس کا انتقال ہوجائے تو ایسی صورت میں وہ عورت عدّت گزار کر دوبارہ سابقہ شوہر سے نکاح کرنا چاہے تو کرسکتی ہے۔
(3) پہلے سے منصوبہ بندی کرکے حلالہ کا عمل کرنا گناہ کا باعث ہے، اور اگر مُدّت طے کرکے کیا جائے تو اس سے نکاح ہی منعقد نہیں ہوتا۔
(4) سوال میں ذکر کردہ صورت میں چونکہ تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں، اس لیے اب رجوع نہیں ہوسکتا، جیسا کہ نمبر 2 میں اس کی تفصیل گزر چکی ہے۔
(5) ایک ساتھ تین طلاقیں دینا سخت ناپسندیدہ عمل ہے، اور ایسا کرنے والا گناہگار ہوتا ہے، البتہ تین طلاقیں ایک ساتھ دینے سے تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں، اللہ تعالی نے مرد کو یہ فطری صلاحیت عطافرمائی ہے کہ وہ اپنے گھر والوں اور بیوی کے درمیان بہترین توازن قائم کرکے اپنے گھر کو خوش اسلوبی سے چلا سکتا ہے، عارضی جھگڑوں کی وجہ سے بیوی کو گھر سے نکالتے رہنا اور تین طلاقیں دینا انتہائی مذموم اور شرم ناک عمل ہے، جس سے توبہ کرنا لازم ہے، اپنے گھریلو معاملات میں جلد بازی میں کوئی قدم اٹھانے کے بجائے مستند مشائخ اور علماء سے مشورہ کرتے رہنا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الكريم: (البقرة، الآية: ٢٣٠)
﴿ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّىٰ تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ۗ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يَتَرَاجَعَا إِنْ ظَنَّا أَنْ يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ ۗ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ●﴾
الفتاوى الهندية: (1/ 353، ط: دار الفکر)
«ولا يقع طلاق الصبي وإن كان يعقل والمجنون والنائم والمبرسم والمغمى عليه والمدهوش هكذا في فتح القدير. وكذلك المعتوه لا يقع طلاقه أيضا وهذا إذا كان في حالة العته أما في حالة الإفاقة فالصحيح أنه واقع هكذا في الجوهرة النيرة.»
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی