سوال:
میرے والدین کی طلاق ہو چکی ہے، اور اب وہ تین بچوں مجھ سمیت میرے چھوٹے بھائیوں کی حوالگی (کسٹڈی) کے لیے ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔ میں اگلے سال 18 سال کا ہونے والا ہوں اور میں شروع میں اپنی والدہ کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں، لیکن میرے والد، نانی اور ماموں کہتے ہیں کہ میری والدہ نے ایک ایسے آدمی سے شادی کر لی ہے جس کے پہلے سے چھ بچے ہیں۔میرے والد نے مجھے اس بات کے ثبوت بھی دکھائے ہیں، جیسے اُن دونوں کے درمیان ہونے والی آواز کی ریکارڈنگز وغیرہ۔
اب میرا سوال یہ ہے کہ کیا میں اپنی والدہ کے ساتھ رہوں؟ کیونکہ میں نے کئی بار اپنی والدہ سے پوچھا کہ کیا انہوں نے واقعی شادی کی ہےتو وہ ہر بار انکار کر دیتی ہیں لیکن میرے والد کے پاس موجود ثبوت بہت مضبوط لگتے ہیں۔
میرے والد نے مجھے دھمکی دی ہے کہ اگر میں عدالت میں اپنی والدہ کے حق میں بیان دوں تو وہ مجھ سے ہمیشہ کے لیے تعلق ختم کر دیں گے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمیں اپنی والدہ سے رابطہ کم کر دینا چاہیے۔
اب میرا سوال یہ ہے کہ مجھے کیا کرنا چاہیے؟کیا اپنی والدہ کو اس عمر میں اکیلا چھوڑ دینا اور اُن سے الگ ہو جانا، گناہ ہوگا؟
جواب: واضح رہے کہ شرعاً طلاق کے بعد عورت کے لیے کہیں اور نکاح کرنا ممنوع یا ناپسندیدہ نہیں ہے، بلکہ یہ اس کا شرعی حق ہے، جس کو وہ استعمال کرکے شریعت کے مطابق اپنی زندگی گزار سکتی ہے، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں اگر آپ کی والدہ نے دوسری شادی کی ہو، تب بھی آپ کے لیے اپنی والدہ کو صرف دوسری شادی کرنے کی وجہ سے چھوڑنا یا ان سے تعلق ختم کرنا جائز نہیں ہے، اور نہ ہی آپ کے والد کا آپ کو صرف اس وجہ سے ان سے تعلق رکھنے سے منع کرنا درست ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الدلائل:
الدر المختار: (568/3، ط: دار الفكر)
(ولا خيار للولد عندنا مطلقا) ذكرا كان، أو أنثى خلافا للشافعي. قلت: وهذا قبل البلوغ، أما بعده فيخير بين أبويه، وإن أراد الانفراد فله ذلك مؤيد زاده معزيا للمنية، وأفاده بقوله (بلغت الجارية مبلغ النساء، إن بكرا ضمها الأب إلى نفسه) إلا إذا دخلت في السن واجتمع لها رأي فتسكن حيث أحبت حيث لا خوف عليها (وإن ثيبا لا) يضمها (إلا إذا لم تكن مأمونة على نفسها) فللأب والجد ولاية الضم لا لغيرهما كما في الابتداء بحر عن الظهيرية.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی