سوال:
ایک شخص نے اپنی بیوی کو ان کی والدہ کے گھر جا کر رہنے سے روکنے کے لیے مشروط طلاق دی اور یہ کہا کہ:"اگر آپ میری مرضی کے بغیر اپنی امی کے ہاں جا کر رہیں گی تو میری طرف سے آپ کو طلاق ہو جائے گی، کیونکہ آپ کی والدہ اب باہر جا چکی ہیں اور صرف لڑکیاں اکیلی رہ رہی ہیں اور کوئی سرپرست موجود نہیں ہے۔"
یہ الفاظ سن کر اس وقت ان کی بیوی ان کے ساتھ واپس آگئیں، پھر ان صاحب نے مزید سمجھانے کی نیت سے کئی بار یہ الفاظ دہرائے تاکہ بیوی کے ذہن میں اچھی طرح بیٹھ جائے کہ اگر وہ ان کی اجازت کے بغیر اپنی والدہ کے گھر جا کر رہیں گی تو طلاق ہو جائے گی۔ سمجھانے کے لیے یہ بھی کہا کہ "اگر میری مرضی کے بغیر جا کر رہو گی تو رشتہ ختم ہو جائے گا۔"
ہر بار بولنے میں ان کی نیت اور ارادہ یہی تھا کہ جو ایک طلاق دی ہوئی ہے، وہی بات بار بار سمجھا رہا ہوں تاکہ یہ غلطی نہ ہو، پھر کچھ دن بعد ان کی بیوی کسی ناراضگی کی وجہ سے اپنے والد کے کہنے پر اپنی والدہ کے گھر چلی گئیں اور وہاں جا کر رہنے لگیں اور اسی طرح تین مہینے گزر گئے۔
معلوم یہ رنا ہے کہ اب اس صورت میں کیا دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے؟ اور کیا طلاق ایک ہی ہوئی ہے یا زیادہ ہو گئی ہیں؟ کیونکہ انہوں نے "طلاق" کا لفظ تو استعمال نہیں کیا تھا، البتہ "طلاق ہو جائے گی" کے معنی والا جملہ کہا تھا۔
جواب: سوال میں ذکر کردہ الفاظ تعلیق طلاق کے ہیں، اگر واقعتاً یہ الفاظ سمجھانے کی نیت سے کہے ہیں تاکہ بیوی اچھی طرح سمجھ جائے اور اس پر شوہر حلف بھی اٹھا لے تو ایسی صورت میں چونکہ الفاظ محتمل ہیں، اس لیے شوہر کی نیت اور حلف کا دیانتاً اعتبار ہوگا، چنانچہ بیوی کو شوہر کی اجازت کے بغیر والدہ کے گھر جانے سے ایک طلاق واقع ہوگئی، اگر بیوی کو اس کی بات اور حلف پر اطمینان ہے تو بیوی کے لیے بھی اس کی تصدیق کرنا درست ہے، لہٰذا اس صورت میں اگر عدّت گزرچکی ہے تو تجدیدِ نکاح کرکے ورنہ رجوع کرکے دونوں کا ایک ساتھ رہنا جائز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (3/ 376، ط: دار الفكر)
«(قوله في أيمان الفتح) خبر عن ما وليس نعتا لفروع لأن الفرع الأول فقط في أيمان الفتح ح (قوله وقع الثلاث) يعني بدخول واحد كما تدل عليه عبارة أيمان الفتح، حيث قال: ولو قال لامرأته والله لا أقربك ثم قال والله لا أقربك فقربها مرة لزمه كفارتان. اه. والظاهر أنه إن نوى التأكيد يدين ح.»
أيضا: (3/ 445)
«(قوله: لم يصدق قضاء) أي بل ديانة لأن الله تعالى عالم بسره لكن لا يسع المرأة أن تقيم معه لأنها كالقاضي لا تعرف منه إلا الظاهر بحر عن المبسوط»
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی