سوال:
مفتی صاحب! آج سے 10 سال پہلے میں اپنے شوہر کو بار بار آن لائن آرڈر کرنے کا بول رہی تھی تو ان کو غصہ آیا کہ میں خود کیوں نہیں کر رہی تو انہوں نے مجھ سے کہا: "آئندہ کسی دکاندار سے بات کی تو طلاق ہے"۔
جبکہ میں اس بات کی پختہ گواہی دے سکتی ہوں کہ ان کی نیت نہیں تھی، نہ ہی ان کا ارادہ مجھ پر پابندی لگانے کا تھا، بس غصے میں ایسے الفاظ منہ سے نکل گئے۔
شوہر کی عمر بھی اتنی نہیں تھی، تقریباً 20 یا 21 سال تھی، دین کا اتنا علم بھی نہیں تھا تو یہ نادانی میں ہو گیا، اس وقت ہم نے کسی مولوی سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اگر بات کی تو ایک طلاق ہو جائے گی۔
خیر! میں کچھ دن یا مہینے خریداری پر نہیں گئی اور بات نہیں کی، لیکن اس کے بعد معمول کے مطابق جانا ہوتا رہا اور دکاندار سے بات بھی ہوتی رہی، ہمیں یہی لگتا تھا کہ ایک ہو گئی، سمجھ اتنی نہیں تھی اس وقت، اتنی عقل نہیں تھی، ورنہ کبھی بات نہ کرتی نہ خریداری پر جاتی۔
پھر کچھ وقت بعد میرے شوہر اپنے الفاظ بھول گئے اور وہ یہ مانتے ہیں کہ میں نے اب کہا تھا تو اب کی صورت میں ایک بھی نہیں ہوتی، لیکن مجھے جو یاد ہے وہ یہ کہ انہوں نے "آئندہ" یا "آج کے بعد" کے الفاظ استعمال کیے تھے، لیکن اب وہ بالکل بھول چکے ہیں اور کہتے ہیں نہیں ہوئی۔
مجھے یہ شک رہتا ہے کہ کیا بات کرنے پر ہماری ایک طلاق ہو گئی ہے، جبکہ نہ تو شوہر کی نیت تھی، نہ ارادہ پابندی لگانے کا تھا، اور نہ ہی ان باتوں کی اتنی سمجھ تھی، بس اچانک منہ سے الفاظ نکل گئے۔
معلوم یہ کرنا ہے کہ اگر میرے شوہر نے "آئندہ" یا "آج کے بعد" کے الفاظ استعمال کیے تھے، اور ان کی نیت بالکل نہیں تھی تو کیا ہماری ایک طلاق ہو گئی ہے؟ براہِ کرم مجھ پر احسان کریں، میں بہت پریشان ہوں۔
جواب: سوال میں ذکر کردہ صورت میں پہلی مرتبہ کسی دکان دار سے بات کرنے پر آپ پر ایک طلاق رجعی واقع ہوچکی ہے، خواہ شوہر نے دونوں الفاظ (آج کے بعد/ آئندہ) میں سے کسی بھی لفظ کے ساتھ طلاق معلق کی ہو، لیکن طلاق واقع ہونے کے بعد دورانِ عدت میاں بیوی کی طرح ایک ساتھ رہنے کی وجہ سے رجوع ہوچکا ہے، اس لیے میاں بیوی کے لیے ساتھ رہنا جائز ہے، البتہ آئندہ شوہر کو صرف دو طلاقوں کا اختیار حاصل ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھندية: (415/1، ط: دار الفکر)
ألفاظ الشرط إن وإذا وإذما وكل وكلما ومتى ومتى ما ففي هذه الألفاظ إذا وجد الشرط انحلت اليمين وانتهت لأنها تقتضي العموم والتكرار فبوجود الفعل مرة تم الشرط وانحلت اليمين فلا يتحقق الحنث بعده إلا في كلما لأنها توجب عموم الأفعال.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی