resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: زندگی میں بعض ورثاء کو دینا اور بعض کو نہیں دینا (32424-No)

سوال: ایک شخص کی صرف بیٹیاں ہیں، بیٹا نہیں ہے اور ایک زوجہ ہے، مزید بہن بھائی بھی موجود ہیں، اس کی ملکیت میں صرف ایک مکان اور کچھ نقدی ہے، اب اگر وہ شخص اپنی زندگی میں اپنی تمام جائیداد بچیوں میں تقسیم کر دے تو اس سے زوجہ اور بھائی بہنوں کی حق تلفی ہوگی یا نہیں؟
کیونکہ اگر وہ میراث تقسیم نہیں کرتا تو اس بات کا خدشہ ہے کہ اس کی وفات کے بعد میراث صحیح تقسیم نہ ہو اور اختلاف کا سبب بنے اور زندگی میں جائیداد بچیوں میں تقسیم کرتا ہے تو اس بات کا شبہ ہے کہ بہن بھائیوں کی حق تلفی نہ ہو جائے، اب شرعی اصولوں کی بنیاد پر آپ حضرات کی کیا رائے ہے کہ وہ کس طرح جائیداد تقسیم کرے؟

جواب: واضح رہے کہ ہر شخص اپنی زندگی میں اپنے مال وجائیداد کا بذات خود مالک ہے، اور مرنے سے پہلے ورثاء کا اس کے مال وجائیداد میں کوئی حصہ مقرّر نہیں ہے، زندگی میں ورثاء کو جو کچھ دیا جاتا ہے، وہ ہبہ (گفٹ) ہوتا ہے، اور ورثاء میں سے صرف اولاد کے درمیان ہبہ میں شرعاً برابری پسندیدہ ہے، اولاد کے علاوہ دیگر ورثاء کے درمیان برابری کرنا ضروری نہیں ہے۔
لہذا اگر اس شخص کو خوف یا اندیشہ ہو کہ میرے مرنے کے بعد میرے ترکہ سے میری بیٹیوں کو ان کا شرعی حصہ نہیں ملے گا اور اس کی نیت دوسرے ورثاء کو نقصان پہنچانے یا محروم کرنے کی نہ ہو، نیز بیوی اور زیر کفالت افراد کے حقوق میں خلل واقع ہونے کا خطرہ بھی نہ ہو تو اپنے مال و جائیداد میں سے اپنے لیے رکھنے کے بعد بیٹیوں کو قبضہ اور مالکانہ تصرف کے ساتھ برابر تقسیم کرنا چاہے تو کرسکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

تكملة فتح الملهم: (71/5، ط: دار العلوم کراتشی)
"فالذي يظهر لهذا العبد الضعيف عفا الله عنه: ان الوالد ان وهب لاحد ابنائه هبة اكثر من غيره اتفاقا، او بسبب علمه، او عمله، او بره بالوالدين من غير ان يقصد بذالك اضرار الاخرين ولا الجور عليهم، كان جائزا علي قول الجمهور،....أما إذا قصد الاضرار او تفضيل احد الابناء علي غيره بقصد التفضيل من غير داعية مجوزة لذالك، فانه لا يبيحه احد...

عمدة القاري: (کتاب الھبة، 146/13، ط: دار إحياء التراث العربي)
يجوز التَّفَاضُل إِن كَانَ لَهُ سَبَب، كاحتياح الْوَلَد لزمانته أَو دينه أَو نَحْو ذَلِك. وَقَالَ أَبُو يُوسُف: تجب التَّسْوِيَة إِن قصد بالتفضيل الْإِضْرَار ، وَذهب الْجُمْهُور إِلَى أَن التَّسْوِيَة مُسْتَحبَّة، فَإِن فضل بَعْضًا صَحَّ وَكره، وحملوا الْأَمر على النّدب وَالنَّهْي على التَّنْزِيه.

الدر المختار: (690/5، ط: دار الفکر)
"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلاً لملك الواهب لا مشغولاً به) والأصل أن الموهوب إن مشغولاً بملك الواهب منع تمامها، وإن شاغلاً لا، فلو وهب جرابًا فيه طعام الواهب أو دارًا فيها متاعه، أو دابةً عليها سرجه وسلمها كذلك لاتصح، وبعكسه تصح في الطعام والمتاع والسرج فقط؛ لأنّ كلاًّ منها شاغل الملك لواهب لا مشغول به؛ لأن شغله بغير ملك واهبه لايمنع تمامها كرهن وصدقة؛ لأن القبض شرط تمامها وتمامه في العمادية".

فتاویٰ دارالعلوم کراچی (امداد السائلین): (242/5، کتاب الھبة، ادارۃ المعارف کراچی)

کذا فی فتاوی بنوری تاؤن: (رقم الفتوی: 143908200269)

واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Inheritance & Will Foster