سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! اکثر تاجروں کی عادت ہوتی ہے کہ بات بات پر قسم کھاتے ہیں، چاہے جھوٹی ہو یا سچی، اپنا سامان بیچنے کے لئے جھوٹی سچی قسم کھا لیتے ہیں، اس بارے میں شریعت کیا کہتی ہے؟
جواب: واضح رہے کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ اللہ تعالی قیامت کے دن ایسے شخص سے نہ بات کریں گے، اور نہ ہی اس پر نظر کریں گے، جو اپنا سامان جھوٹی قسم کھا کر فروخت کرتا ہو، لہذا جھوٹی قسم کھانا گناہ کبیرہ میں سے ہے، اس لئے سامان وغیرہ بیچنے کی خاطر جھوٹی قسم کھانا بڑے خسارے کی بات ہے، پس جس کو اس کی عادت پڑ گئی ہو تو اسے چاہیے کہ فورا توبہ کرے، اور اپنی اصلاح کے کوشش کرے، تاکہ قیامت کے دن کسی قسم کی پشیمانی نہ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح البخاري: (باب ما قیل في شہادۃ الزور، رقم الحدیث: 2589)
عن أنس -رضي اﷲ عنہ- قال: سئل النبي صلی اﷲ علیہ وسلم عن الکبائر، فقال: الإشراک باﷲ، وعقوق الوالدین، وقتل النفس، وشہادۃ الزور۔
صحیح مسلم: (کتاب الإیمان، رقم الحدیث: 106، 71/1، ط: بیت الأفکار)
عن أبي ذر رضي اﷲ عنہ عن النبي صلی اﷲ علیہ وسلم قال: ثلاثۃ لا یکلمہم اﷲ یوم القیامۃ، ولا ینظر إلیہم ولا یزکہیم ولہم عذاب ألیم قال: فقرأہا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ثلاث مرارا، قال أبوذر: خابوا وخسروا من ہم یا رسول اﷲ! قال: المسبل والمنان، والمنفق سلعتہ بالحلف الکاذب۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی