سوال:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! یہ ایک بڑا سماجی مسئلہ ہے اور ہر دوسرے تیسرے گھر کی یہ کہانی ہے چاہے دیندار گھرانہ ہو یا غیر دیندار، اس سلسلے میں شرعی رہنمائی درکار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی اکثر بیویاں مطالبہ کرتی ہیں کہ ان کو اپنا الگ گھر چاہیے اور عمومی طور پر یہ عورتوں کی ایک اپس کے مسائل کی وجہ سے ہوتا ہے۔
سوال یہ مرد جو شوہر بھی ہوتا ہے اور بیٹا بھی ہوتا ہے اس کی کیا ذمہ داری ہے؟
اس سلسلے میں درجہ ذیل سوالات ہیں برائے مہربانی اس کی شرعی رہنمائی فرمائیں:
1) اگر مرد اپنی بیوی کو الگ گھر دلاتا ہے تو ماں باپ کہاں رہیں گے؟ کیونکہ ہر ایک کی اتنی استعداد تو نہیں ہے کہ آج کل کے حالات الگ الگ گھر لے اور الگ سے سارے خرچے برداشت کریں۔
2) اگر بوڑھے ماں باپ کو الگ رکھ سکتا ہے تو کیا یہ مناسب ہے کہ ان کو اکیلا چھوڑ دیں اور ان کی دن رات کیسے خدمت کریں اور نہیں کرتا تو والدین کے حقوق پورے نہیں ہوتے تو گنہگار ہوتا ہے۔ اگر بیوی کو اس کے مطالبے کے باوجود ماں باپ کے ساتھ رکھتا ہے تو پھر بھی گنہگار ہوتا ہے۔ اکثر لوگ یہ بات کرتے ہیں کہ یہ شرعی مسئلہ ہے اور بیوی کو الگ رکھنا چاہیے اور اس سلسلے میں مختلف علماء کرام کا حوالہ بھی دیتے ہیں، لیکن یہ حل نہیں دیتے کہ ماں باپ کے حقوق کیسے پورا کریں؟ برائے مہربانی آج کل کے حالات کے مطابق اس مسئلہ کا کیا حل ہے؟ اس سے متعلق شرعی رہنمائی فرما دیں۔ جزاک اللہ خیرا
جواب: واضح رہے کہ شوہر پر بیوی کو رہائش فراہم کرنا شرعاً لازم ہے، البتہ شوہر پر نہ تو ہر حال میں بیوی کو مستقل الگ گھر دینا ضروری ہے (جیسا کہ عوام میں مشہور ہے) اور نہ ہی صرف ایک کمرے پر کفایت کرنا کافی ہے، بلکہ نان و نفقہ کی طرح اس کا مدار میاں بیوی کی مالی اور معاشی کیفیت پر ہے، جس کی تفصیل ذیل میں ذکر کی جاتی ہے:
1) اگر میاں بیوی مال دار ہوں اور ان کی مالی حالت اچھی ہو تو عورت کے مطالبے پر بیوی کو رہائش کے لیے ایسا الگ گھر دینا لازم ہے جس میں شوہر کے دیگر رشتہ داروں کا عمل دخل نہ ہو۔ یہ بات یاد رہے کہ رہائشی گھر شوہر کی ذاتی ملکیت کا ہونا ضروری نہیں ہے، بلکہ کرایہ کا گھر دینا بھی کافی ہوگا۔
2) اگر میاں بیوی کی مالی حالت متوسط (درمیانے) درجہ کی ہو تو شوہر پر بیوی کو ایسا ایک الگ کمرہ (جس کو بوقت ضرورت تالا لگاسکے) اور اس کے ساتھ مستقل الگ سے ایسا باورچی خانہ، بیت الخلاء اور غسل خانہ فراہم کرنا لازم ہے جس میں شوہر کے دیگر رشتہ داروں کا عمل دخل نہ ہو۔
3) اگر میاں بیوی کی مالی حالت ادنیٰ اور کمزور درجہ کی ہو تو شوہر پر بیوی کو ایسا الگ کمرہ فراہم کرنا، جسے وہ بوقت ضرورت تالا لگاسکے اور اس میں شوہر کے دیگر رشتہ داروں کا عمل دخل نہ ہو، کافی ہے، اگرچہ باورچی خانہ، بیت الخلاء اور غسل خانہ سب کے درمیان مشترک ہوں۔
4) اگر عورت مال دار گھرانے سے تعلق رکھتی ہو اور شوہر متوسّط درجے کا ہو یا غریب ہو تو اس پر اپنی استطاعت کے مطابق متوسط درجہ کی رہائش فراہم کرنا ضروری ہے، الگ گھر دینا لازم نہیں ہے۔
سابقہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ صرف پہلی صورت کے علاوہ شوہر پر عورت کے مطالبے پر اسے الگ گھر لے کر دینا اور اپنے والدین سے جدائی اختیار کرنا شرعاً لازم نہیں ہے، البتہ پہلی صورت میں بیوی کے مطالبے پر اسے الگ گھر دینا لازمی ہے اور یہ بیوی ہونے کے ناطے اس کا ایک شرعی حق ہے، خصوصاً جبکہ ایک ساتھ رہنے میں بیوی کی طرف سے والدین کے حقوق ضائع ہونے اور آپس میں لڑائی جھگڑے کا اندیشہ ہو۔
چونکہ اسلام عدل و انصاف پر مبنی دین ہے، اس لیے شریعتِ مطہّرہ نے جہاں ایک طرف بیوی کے حقوق کی ادائیگی اور اس کے ساتھ حسنِ معاشرت کی تعلیم دی ہے تو دوسری جانب والدین کے حقوق کی ادائیگی، ان کی خدمت کرنا اور ان کا ادب و احترام بھی شرعاً ضروری قرار دیا ہے، لہذا بوقتِ مجبوری والدین سے الگ رہائش کی صورت میں بھی ان کے حقوق کی ادائیگی کرنا شرعاً ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (602/3، ط: دار الفکر)
(وكذا تجب لها السكنى في بيت خال عن أهله) ... (وأهلها) ... (بقدر حالهما) كطعام وكسوة وبيت منفرد من دار له غلق. زاد في الاختيار والعيني: ومرافق، ومراده لزوم كنيف ومطبخ، وينبغي الإفتاء به بحر.
(قوله وأهلها) أي له منعهم من السكنى معها في بيته سواء كان ملكا له أو إجارة أو عارية.
(قوله بقدر حالهما) أي في اليسار والإعسار، فليس مسكن الأغنياء كمسكن الفقراء كما في البحر؛ لكن إذا كان أحدهما غنيا والآخر فقيرا؛ فقد مر أنه يجب لها في الطعام والكسوة الوسط، ويخاطب بقدر وسعه.
(قوله ومفاده لزوم كنيف ومطبخ) أي بيت الخلاء وموضع الطبخ بأن يكونا داخل البيت أو في الدار لا يشاركها فيهما أحد من أهل الدار. قلت: وينبغي أن يكون هذا في غير الفقراء الذين يسكنون في الربوع والأحواش بحيث يكون لكل واحد بيت يخصه وبعض المرافق مشتركة كالخلاء والتنور وبئر الماء ويأتي تمامه قريبا.
وعلى ما نقلنا عن ملتقط أبي القاسم وتجنيسه للأسروشني أن ذلك يختلف باختلاف الناس، ففي الشريفة ذات اليسار لا بد من إفرادها في دار، ومتوسط الحال يكفيها بيت واحد من دار. ومفهومه أن من كانت من ذوات الإعسار يكفيها بيت ولو مع أحمائها وضرتها كأكثر الأعراب وأهل القرى وفقراء المدن الذين يسكنون في الأحواش والربوع، وهذا التفصيل هو الموافق، لما مر من أن المسكن يعتبر بقدر حالهما، ولقوله تعالى - {أسكنوهن من حيث سكنتم من وجدكم} [الطلاق: ٦]- وينبغي اعتماده في زماننا هذا فقد مر أن الطعام والكسوة يختلفان باختلاف الزمان والمكان.... إذ لا شك أن المعروف يختلف باختلاف الزمان والمكان، فعلى المفتي أن ينظر إلى حال أهل زمانه وبلده، إذ بدون ذلك لا تحصل المعاشرة بالمعروف، وقد قال تعالى - {ولا تضاروهن لتضيقوا عليهن} [الطلاق: ٦].
الهندية: (556/1، ط: دار الفكر)
امرأة أبت أن تسكن مع ضرتها، أو مع أحمائها كأمه وغيرها، فإن كان في الدار بيوت فرغ لها بيتا، وجعل لبيتها غلقا على حدة ليس لها أن تطلب من الزوج بيتا آخر، فإن لم يكن فيها إلا بيت واحد فلها ذلك... كذا في الظهيرية، وبه أفتى برهان الأئمة كذا في الوجيز للكردري.
کذا فی احسن الفتاوی: (476/5، ط: ایچ ایم سعید)
کذا فی امداد الاحکام: (884/2، ط: دار العلوم کراچی)
کذا فی تبویب فتاوی دارالعلوم کراچی: رقم الفتوی: 1/1434
کذا فی فتاوی عثمانی: (490/2)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی