سوال:
مفتی صاحب! کیا کسی کا پوری زندگی نکاح نہ کرنا گناہ ہے؟ اگر اس کی کسی کے ساتھ بنتی نہ ہو، وہ کسی کی بات نہ مانتی ہو، کسی کے ساتھ نباہ کرنا مشکل ہو، لیکن اپنے نفس پر قابو ہو تو کیا اس صورت میں نکاح نہ کرنا گناہ ہوگا؟ نیز اگر کسی لڑکی کو علم ہو کہ وہ اپنے شوہر کے حقوق ادا نہیں کر پائے گی تو کیا اس کے باوجود نکاح نہ کرنا جائز ہے؟ مزید یہ کہ لڑکی کا نکاح کے لیے لڑکے میں یہ چار چیزیں دیکھنا جائز ہے: (1)مال و دولت (2) حسن و جمال (3) دینداری (4) اخلاق، اگر یہ چیزیں نہ ہوں تو کیا رشتے سے انکار کرنا جائز ہے؟
جواب: واضح رہے کہ اسلام ایک ایسا مکمّل دین ہے جو انسان کی جسمانی، ذہنی، روحانی اور معاشرتی ہر ضرورت کو پیشِ نظر رکھتا ہے۔ انہی ضروریات کی تکمیل کے لیے اسلام نے نکاح کو ایک بابرکت عمل قرار دیا ہے، جو فرد اور معاشرے دونوں کے لیے کئی مفاسد سے حفاظت کا ذریعہ ہے۔
نکاح نہ کرنا اور زندگی بھر اکیلے رہنا دراصل مغربی معاشرے کا وطیرہ ہے، جس نے اس مقدّس رشتے کو غیر ضروری سمجھ کر خاندانی نظام کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ آج ان کے معاشروں میں ٹوٹے ہوئے خاندان، غیر اخلاقی تعلّقات، بچّوں کی بے راہ روی اور بڑھاپے کی تنہائی عام ہو چکی ہے۔
افسوس ہے کہ آج کل کچھ مسلمان مرد و عورتیں بھی اپنی طبیعت، ترجیحات یا ماضی کے تلخ تجربات کی بناء پر نکاح سے گریز کرتے ہیں، اور زندگی بھر اکیلا رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ابتداء میں یہ طرزِ زندگی انہیں آزادی اور خودمختاری کا احساس ضرور دلاتا ہے، لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا ہے، تنہائی، اور ذہنی دباؤ جیسے امراض اس کی جگہ لے لیتے ہیں، جس سے وہ بے بسی اور احساسِ محرومی کا شکار ہو جاتے ہیں، اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ خودکشی جیسے سنگین عمل کی طرف بھی قدم اٹھا لیتے ہیں۔
اسلام نے ان مفاسد اور خرابیوں سے انسانیت کو محفوظ رکھنے کے لیے نکاح کرنے کی بہت اہمیت بیان فرمائی ہے اور عام حالات میں نکاح کو سنتِ مؤکّدہ قرار دیا ہے۔ چنانچہ امّ المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: " نکاح میری سنت اور میرا طریقہ ہے، جو میری سنت پہ عمل نہ کرے وہ مجھ سے نہیں ہے، تم لوگ شادی کرو، اس لیے کہ میں تمہاری کثرت کی وجہ سے دوسری امتوں پر (قیامت کے دن) فخر کروں گا، جو صاحب استطاعت ہوں شادی کریں، اور جس کو شادی کی استطاعت نہ ہو وہ روزے رکھے، اس لیے کہ روزہ اس کی شہوت کو کچلنے کا ذریعہ ہے۔" (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر:1846)
لہٰذا صرف اس اندیشے کی بنیاد پر کہ نکاح کے بعد عورت شوہر کے شرعی حقوق ادا نہیں کر سکے گی، عمر بھر نکاح نہ کرنا مناسب طرزِ عمل نہیں، کیونکہ موجودہ دور فتنوں سے خالی نہیں۔ لہٰذا گناہوں سے بچنے اور عفّت و پاکدامنی کے تحفظ کے لیے نکاح کر لینا بہتر اور زیادہ محفوظ راستہ ہے۔
نیز رشتہ کے انتخاب میں عموماً مال، حسب و نسب، حسن و جمال اور دین داری کو بنیاد بنایا جاتا ہے۔ شریعت مطہّرہ نے ان چیزوں کا بالکلّیہ رد نہیں کیا، بلکہ ان سب چیزوں پر دین داری کو ترجیح دینے کا حکم دیا ہے، جیسا کہ ابوہریرہ رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عورتوں سے چار چیزوں کی وجہ سے شادی کی جاتی ہے، ان کے مال و دولت کی وجہ سے، ان کے حسب و نسب کی وجہ سے، ان کے حسن و جمال اور خوبصورتی کی وجہ سے، اور ان کی دین داری کی وجہ سے، لہٰذا تم دیندار عورت کا انتخاب کر کے کامیاب بنو، تمھارے ہاتھ خاک آلود ہوں۔" (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 1858)
اسی طرح ایک اور حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تمہیں کوئی ایسا شخص شادی کا پیغام دے، جس کی دین داری اور اخلاق سے تمہیں اطمینان ہو تو اس سے شادی کر دو۔ اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور فساد عظیم برپا ہو گا"۔ (جامع الترمذی، حدیث نمبر:(1084)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن ابن ماجه:(رقم الحديث:1846)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْأَزْهَرِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا آدَمُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ مَيْمُونٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " النِّكَاحُ مِنْ سُنَّتِي، فَمَنْ لَمْ يَعْمَلْ بِسُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي، وَتَزَوَّجُوا فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمُ الْأُمَمَ، وَمَنْ كَانَ ذَا طَوْلٍ فَلْيَنْكِحْ، وَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَعَلَيْهِ بِالصِّيَامِ ؛ فَإِنَّ الصَّوْمَ لَهُ وِجَاءٌ ".
سنن ابن ماجه: رقم الحديث:1858)
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " تُنْكَحُ النِّسَاءُ لِأَرْبَعٍ : لِمَالِهَا، وَلِحَسَبِهَا، وَلِجَمَالِهَا، وَلِدِينِهَا، فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ ".
جامع الترمذی:(رقم الحدیث:1084)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ ، عَنِ ابْنِ وَثِيمَةَ النَّصْرِيِّ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِذَا خَطَبَ إِلَيْكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ، وَخُلُقَهُ فَزَوِّجُوهُ، إِلَّا تَفْعَلُوا تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ، وَفَسَادٌ عَرِيضٌ ". وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي حَاتِمٍ الْمُزَنِيِّ، وَعَائِشَةَ. حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ قَدْ خُولِفَ عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ سُلَيْمَانَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، وَرَوَاهُ اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا. قَالَ مُحَمَّدٌ : وَحَدِيثُ اللَّيْثِ أَشْبَهُ. وَلَمْ يَعُدَّ حَدِيثَ عَبْدِ الْحَمِيدِ مَحْفُوظًا.
مرقاة المفاتيح: (كتاب النكاح، 240/6،ط: دار الكتب العلمية)
(ﻭﻋﻦ) ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ ﻗﺎﻝ: ﻗﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ - ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ -: (ﺗﻨﻜﺢ اﻟﻤﺮﺃﺓ ﻷﺭﺑﻊ) ﺃﻱ: ﻟﺨﺼﺎﻟﻬﺎ اﻷﺭﺑﻊ ﻓﻲ ﻏﺎﻟﺐ اﻟﻌﺎﺩﺓ (ﻟﻤﺎﻟﻬﺎ، ﻭﻟﺤﺴﺒﻬﺎ) ﺑﻔﺘﺤﺘﻴﻦ ﻭﻫﻮ ﻣﺎ ﻳﻜﻮﻥ ﻓﻲ اﻟﺸﺨﺺ ﻭﺁﺑﺎﺋﻪ ﻣﻦ اﻟﺨﺼﺎﻝ اﻟﺤﻤﻴﺪﺓ ﺷﺮﻋﺎ ﺃﻭ ﻋﺮﻓﺎ ﻣﺄﺧﻮﺫ ﻣﻦ اﻟﺤﺴﺎﺏ، ﻷﻧﻬﻢ ﺇﺫا ﺗﻔﺎﺧﺮﻭا ﻋﺪ ﻛﻞ ﻭاﺣﺪ ﻣﻨﻬﻢ ﻣﻨﺎﻗﺒﻪ ﻭﻣﺂﺛﺮ ﺁﺑﺎﺋﻪ (ﻭﻟﺠﻤﺎﻟﻬﺎ) ﺃﻱ: ﻟﺼﻮﺭﺗﻬﺎ (ﻭﻟﺪﻳﻨﻬﺎ) ﺃﻱ: ﺳﻴﺮﺗﻬﺎ. ﻗﺎﻝ اﻟﻄﻴﺒﻲ - ﺭﺣﻤﻪ اﻟﻠﻪ -: " ﻟﻤﺎﻟﻬﺎ ﺇﻟﺦ ﺑﺪﻝ ﻣﻦ ﺃﺭﺑﻊ ﺑﺈﻋﺎﺩﺓ اﻟﻌﺎﻣﻞ، ﻭﻗﺪ ﺟﺎءﺕ اللام ﻣﻜﺮﺭا ﻓﻲ اﻟﺨﺼﺎﻝ اﻷﺭﺑﻊ ﻓﻲ ﺻﺤﻴﺢ ﻣﺴﻠﻢ، ﻭﻟﻴﺲ ﻓﻲ ﺻﺤﻴﺢ اﻟﺒﺨﺎﺭﻱ اللام ﻓﻲ ﺟﻤﺎﻟﻬﺎ اﻩ. ﻭﻣﺎ ﻓﻲ اﻟﻜﺘﺎﺏ ﻣﻮاﻓﻖ ﻟﻤﺴﻠﻢ (ﻓﺎﻇﻔﺮ ﺑﺬاﺕ اﻟﺪﻳﻦ) ﺃﻱ: ﻓﺰ ﺑﻨﻜﺎﺣﻬﺎ. ﻗﺎﻝ اﻟﻘﺎﺿﻲ - ﺭﺣﻤﻪ اﻟﻠﻪ -: "ﻣﻦ ﻋﺎﺩﺓ اﻟﻨﺎﺱ ﺃﻥ ﻳﺮﻏﺒﻮا ﻓﻲ اﻟﻨﺴﺎء ﻭﻳﺨﺘﺎﺭﻭﻫﺎ ﻹﺣﺪﻯ ﺃﺭﺑﻊ ﺧﺼﺎﻝ ﻋﺪﻫﺎ، ﻭاﻟﻻﺋﻖ ﺑﺬﻭﻱ اﻟﻤﺮﻭءاﺕ ﻭﺃﺭﺑﺎﺏ اﻟﺪﻳﺎﻧﺎﺕ ﺃﻥ ﻳﻜﻮﻥ اﻟﺪﻳﻦ ﻣﻦ ﻣﻄﻤﺢ ﻧﻈﺮﻫﻢ ﻓﻴﻤﺎ ﻳﺄﺗﻮﻥ ﻭﻳﺬﺭﻭﻥ، ﻻ ﺳﻴﻤﺎ ﻓﻴﻤﺎ ﻳﺪﻭﻡ ﺃﻣﺮﻩ ﻭﻳﻌﻈﻢ ﺧﻄﺮﻩ. (ﺗﺮﺑﺖ ﻳﺪاﻙ) ﻳﻘﺎﻝ: ﺗﺮﺏ اﻟﺮﺟﻞ ﺃﻱ: اﻓﺘﻘﺮ ﻛﺄﻧﻪ ﻗﺎﻝ: ﺗﻠﺘﺼﻖ ﺑﺎﻟﺘﺮاﺏ، ﻭﻻ ﻳﺮاﺩ ﺑﻪ ﻫﺎﻫﻨﺎ اﻟﺪﻋﺎء، ﺑﻞ اﻟﺤﺚ ﻋﻠﻰ اﻟﺠﺪ ﻭاﻟﺘﺸﻤﻴﺮ ﻓﻲ ﻃﻠﺐ اﻟﻤﺄﻣﻮﺭ ﺑﻪ. ﻗﻴﻞ: ﻣﻌﻨﺎﻩ ﺻﺮﺕ ﻣﺤﺮﻭﻣﺎ ﻣﻦ اﻟﺨﻴﺮ ﺇﻥ ﻟﻢ ﺗﻔﻌﻞ ﻣﺎ ﺃﻣﺮﺗﻚ ﺑﻪ، ﻭﺗﻌﺪﻳﺖ ﺫاﺕ اﻟﺪﻳﻦ ﺇﻟﻰ ﺫاﺕ اﻟﺠﻤﺎﻝ ﻭﻏﻴﺮﻫﺎ، ﻭﺃﺭاﺩ ﺑﺎﻟﺪﻳﻦ اﻹﺳﻼﻡ ﻭاﻟﺘﻘﻮﻯ، ﻭﻫﺬا ﻳﺪﻝ ﻋﻠﻰ ﻣﺮاﻋﺎﺓ اﻟﻜﻔﺎءﺓ، ﻭﺃﻥ اﻟﺪﻳﻦ ﺃﻭﻟﻰ ﻣﺎ اﻋﺘﺒﺮ ﻓﻴﻬﺎ. (ﻣﺘﻔﻖ ﻋﻠﻴﻪ) ﻭﺭﻭاﻩ ﺃﺑﻮ ﺩاﻭﺩ، ﻭاﻟﻨﺴﺎﺋﻲ، ﻭاﺑﻦ ﻣﺎﺟﻪ.
واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص کراچی