سوال:
محترم مفتی صاحب! مجھے ایک اہم شرعی مسئلے میں آپ کی رہنمائی درکار ہے۔
دو ماہ قبل میری شادی ہوئی تھی۔ ہم نے اپنے خاندان والوں کو اطلاع نہیں دی، کیونکہ وہ اس نکاح کو قبول کرنے پر تیار نہیں تھے۔ ہم گناہ سے بچنا چاہتے تھے، اسی لیے ہم نے خفیہ طور پر نکاح کر لیا۔ نکاح دو گواہوں کی موجودگی میں ہوا۔ لڑکی نے اپنے ایک دوست کو فون کال کے ذریعے یہ کہہ کر اپنا وُلی مقرر کیا کہ: “میں تمہیں اپنی طرف سے ولی بنا رہی ہوں۔” اس نے لفظ وکیل نہیں کہا، بلکہ ولی ہی بنایا، اس کے بعد نکاح کا عمل انجام دیا گیا اور جنہیں ولی بنایا گیا، انہوں نے ہی نکاح پڑھا دیا۔
میرا سوال یہ ہے:
1) کیا ایسا نکاح شریعت (فقہِ حنفی) کے مطابق درست ہے؟
2) اگر نکاح صحیح تھا تو میں نے اب تین طلاقیں دے دی ہیں۔ کیا اس کا مطلب ہے کہ نکاح مکمل طور پر ختم ہو گیا؟
3) اگر ابتدا میں نکاح صحیح ہی نہیں تھا تو کیا اب دوبارہ نیا نکاح کرنا جائز ہوگا؟
مزید یہ کہ میں نے اپنی بیوی کو دین کی طرف لانے کی بہت کوشش کی، مگر وہ بار بار دین اور حیا کے خلاف کام کرتی رہی، میں نے اس سے پہلے تنبیہ کے طور پر دو طلاقیں بھی دے دی تھیں، مگر وہ نہ بدلی، آخر آج میں نے تیسری طلاق دے دی، کیونکہ اس نے دوبارہ انسٹاگرام پر بے پردہ تصویر پوسٹ کی، غیر محرم مرد سے چیٹنگ کر رہی تھی، روزمرہ زندگی میں بھی بدتمیزی کرتی، میرے حقوق پورے نہیں کرتی، نافرمانی، بدکلامی، اور ہر وقت لڑائی جھگڑا اس کا معمول بن گیا تھا۔
میں نے اس کی ہدایت کے لیے بہت محنت کی دعائیں کیں، تہجد، اشراق پڑھا، نفل روزے رکھےلیکن اس نے مجھے ذہنی اور جذباتی طور پر بہت تکلیف دی، طلاق دینے کے بعد میں بہت رویا، میں اسے بہت محبت کرتا ہوں اور خود کو بھی ملامت کرتا ہوں کہ میں نے طلاق کیوں دی۔ ایک لمحے میں لگتا ہے کہ شاید غلط کیا، پھر اگلے لمحے اس کے رویوں کو یاد کر کے دل کانپ جاتا ہے۔
میں سوچ رہا تھا کہ شاید اسے بھی دکھ پہنچا ہوگا، مگر اس کے انسٹاگرام پر دیکھا کہ وہ تو مزید خوش نظر آرہی ہے، اس نے مزید پوسٹس ڈال دی ہیں۔، اس سے مجھے یقین ہوا کہ وہ میری طرح ٹوٹی نہیں، میں اسے بہت چاہتا ہوں۔
اگر طلاق واقع ہو گئی ہے تو میرا دل کہتا ہے کہ شاید اللہ نے اسے میری زندگی سے نکال کر میرے لیے بہتری فرمائی ہے
اور اگر نکاح ہی درست نہیں تھا تو شاید طلاق بھی واقع نہیں ہوئی۔
4) کیا مجھے اس سے دوبارہ نکاح کرنا چاہیے؟ مجھے معلوم ہے کہ وہ شاید پھر وہی تکلیف دے گی، کیونکہ وہ آج بھی اللہ کو ناراض کرنے والی زندگی گزار رہی ہے، لیکن پھر بھی میں دل سے اسے چاہتا ہوں۔
5) اگر اس سے نکاح دوبارہ کرنا میرے لیے بہتر یا جائز نہ ہو تو برائے مہربانی کوئی ایسی دعا بتا دیں کہ میں اسے بھول سکوں۔ میں فقہِ حنفی کا پیروکار ہوں اور اس معاملے میں آپ کی تفصیلی رہنمائی کا طلبگار ہوں۔ جزاکم اللہ خیراً
تنقیح :
محترم آپ ذرا اس بات کی وضاحت کر دیں کہ مجلس نکاح میں جو دو گواہ موجود تھے یہ لڑکے اور لڑکی کے وکیل کے علاوہ دو آدمی تھے یا ان دو میں سے ایک لڑکی کا ولی/وکیل تھا؟ نیز کیا دلہا مجلس میں حاضر تھا؟
جواب تنقیح:
حضرت! میری ایک لڑکی سے شادی ہوئی… لڑکی اپنے گھر پر تھی اور وہیں رہتے ہوئے اس نے فون کال کے ذریعے میرے دوست کو اپنا ولی بنا دیا، پھر اسی ولی نے دو گواہوں کی موجودگی میں ہمارا نکاح پڑھایا، دلہا مجلس میں تھا۔ کیا یہ نکاح واقع ہوا ہے؟
وہ دونوں الگ الگ آدمی تھے، لیکن انہیں اس بات کا علم نہیں تھا کہ انہیں نکاح کی مجلس کے لیے اکٹھا کیا گیا ہے۔ وہ صرف قبولِ نکاح کے الفاظ سن کر اپنے کمرے میں واپس چلے گئے۔ لڑکی نے اپنا نمائندہ (وکیل/ولی) فون کال کے ذریعے مقرر کیا تھا، کیونکہ لڑکی اپنے گھر پر تھی اور لڑکے ہاسٹل میں تھے۔
1) ولی (والد) نے اجازت نہیں دی؛ ہم نے صرف گناہ سے بچنے کی نیت سے نکاح کیا تھا۔
2) کفُو (برابری) کے بارے میں کچھ معلومات عرض کرنا چاہتا ہوں: لڑکی کے والدین مالی حالت میں ہم سے کہیں بہتر ہیں،
اس کے والد کا بڑا کاروبار ہے، جبکہ میرے والد لاک ڈاؤن کے بعد سے پچھلے 5–6 سال سے بے روزگار ہیں، صرف میری والدہ نوکری کرتی ہیں اور 8,000 روپے کماتی ہیں، اسی سے گھر چلتا ہے۔ دین داری کے معاملے میں اس کے والدین ہم سے کہیں زیادہ دیندار ہیں، بلکہ میرے پورے گھر میں کوئی خاص مذہبی نہیں ہے۔ میں اور وہ دونوں صرف گناہ سے بچنے کے لیے شادی کرنا چاہتے تھے۔ ہم دونوں طالب علم ہیں، اور میں ابھی کچھ کماتا بھی نہیں۔
جواب: پوچھی گئی صورت میں چونکہ دو عاقل، بالغ مرد گواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول کیا گیا ہے، اس لیے یہ نکاح اگرچہ غیر کفو میں ہوا ہے لیکن شرعاً منعقد ہوچکا ہے، البتہ لڑکی کا اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرنا شرعی و اخلاقی طور پر ناپسندیدہ ہے اور غیرںکفو میں نکاح کی صورت میں ولی کو اولاد ہونے سے پہلے تک نکاح فسخ کرانے کا اختیار حاصل ہوتا ہے، لیکن اگر ان کے درمیان تفریق ہونے سے پہلے شوہر بیوی کو طلاق دیدے تو طلاق واقع ہوجاتی ہے، لہذا پوچھی گئی صورت میں مذکورہ عورت پر تین طلاقیں مغلّظہ واقع ہو گئی ہیں اور دوسرے شوہر کے ساتھ نکاح اور حقوق زوجیت ادا کیے بغیر آپ کا ان کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنا جائز نہیں ہے۔
سابقہ بیوی کے خیالات سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ ان سے دل کا تعلق ختم کرکے اپنی توجہ دوسرے دینی و دنیوی مفید کاموں کی طرف منتقل کریں، کیونکہ ممکن ہے کہ آپ کی دنیا و آخرت کی بھلائی اسی میں ہو اور آدمی جب اپنے آپ کو مفید اور نیک کاموں میں مشغول رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے دل کو بہتر رخ پر لے آتا ہے اور یہ کیفیت خود بخود زائل ہوجاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع: (2/ 247، ط: دار الكتب العلمية)
وأما ولاية الندب والاستحباب فهي: الولاية على الحرة البالغة العاقلة بكرا كانت أو ثيبا في قول أبي حنيفة وزفر وقول أبي يوسف الأول، وفي قول محمد وأبي يوسف الآخر الولاية عليها ولاية مشتركة.
وعند الشافعي هي ولاية مشتركة ... وعلى هذا يبنى الحرة البالغة العاقلة إذا زوجت نفسها من رجل أو وكلت رجلاً بالتزويج فتزوجها أو زوجها فضولي فأجازت جاز في قول أبي حنيفة وزفر وأبي يوسف الأول، سواء زوجت نفسها من كفء أو غير كفء بمهر وافر أو قاصر، غير أنها إذا زوجت نفسها من غير كفء فللأولياء حق الاعتراض".
الفتاوى العالمكيرية = الفتاوى الهندية: (1/292، ط:المطبعة الكبرى الأميرية)
"ثم المرأة إذا زوجت نفسها من غير كفء صح النكاح في ظاهر الرواية عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وهو قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - آخراً وقول محمد - رحمه الله تعالى - آخراً أيضاً، حتى أن قبل التفريق يثبت فيه حكم الطلاق والظهار والإيلاء والتوارث وغير ذلك، ولكن للأولياء حق الاعتراض ... وفي البزازية: ذكر برهان الأئمة أن الفتوى في جواز النكاح بكراً كانت أو ثيباً على قول الإمام الأعظم، وهذا إذا كان لها ولي، فإن لم يكن صح النكاح اتفاقاً، كذا في النهر الفائق، ولا يكون التفريق بذلك إلا عند القاضي، أما بدون فسخ القاضي فلا ينفسخ النكاح بينهما".
حاشية ابن عابدين = رد المحتار: ( 3/ 55، ط:المطفی الیابي الحلبي)
(قوله فنفذ إلخ) أراد بالنفاذ الصحة وترتب الأحكام من طلاق وتوارث وغيرهما لا اللزوم، إذ هو أخص منها لأنه ما لا يمكن نقضه وهذا يمكن رفعه إذا كان من غير كفء، فقوله في الشرنبلالية أي ينعقد لازما في إطلاقه نظر.
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام: ( 1/ 21، ط: دار الجيل)
العبرة في العقود للمقاصد والمعاني لا للألفاظ والمباني ولذا يجري حكم الرهن في البيع بالوفاء.
العقد: هو ارتباط الإيجاب بالقبول كعقد البيع، والإجارة، والإعارة إلخ.
اللفظ: هو الكلام الذي ينطق به الإنسان بقصد التعبير عن ضميره.
يفهم من هذه المادة أنه عند حصول العقد لا ينظر للألفاظ التي يستعملها العاقدان حين العقد بل إنما ينظر إلى مقاصدهم الحقيقية من الكلام الذي يلفظ به حين العقد؛ لأن المقصود الحقيقي هو المعنى وليس اللفظ ولا الصيغة المستعملة وما الألفاظ إلا قوالب للمعاني.
ومع ذلك فإنه ما لم يتعذر التأليف بين الألفاظ والمعاني المقصودة لا يجوز إلغاء الألفاظ.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی